بلند شہر میں مبینہ گئو کشی اور اس کے بعد گئو رکشکوں کی غنڈہ گردی، انسپکٹر سبودھ کمار کا قتل اور سیانہ علاقہ کی چنگراوٹھی چوکی میں آگزنی، یہ تمام واقعات اچانک پیش آئے یا پھر یہ کسی خطرناک سازش کے تحت انجام دیئے گئے۔ ایسے کئی حقائق منظر عام پر آ رہے ہیں جن کے بعد یہ سوال اٹھ رہے ہیں کہ کیا بلند شہر میں تشدد منصوبہ بند طریقہ سے کرایا گیا تھا؟
نیوز 18 کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ تشدد کے دن جائے وقوعہ سے 100 میٹر کے فاصلہ پر واقع چنگراوٹھی گاؤں کے پرائمری اور جونیئر ہائی اسکول میں بچوں کو قبل از وقت مڈ ڈے میل دے دیا گیا تھا۔ جبکہ اصولوں کے مطابق بچوں کو ہر دن دوپہر 12.30 بجے کھانا دیا جاتا ہے۔
3 دسمبر کو اسی گاؤں میں تقریباً 400 لوگوں کے ہجوم کا پولس کے ساتھ تصادم ہوا تھا جس میں انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ کی جان چلی گئی تھی۔
رپورٹ میں اسکول کے ٹیچر اور مڈ ڈے میل انچارج کے حوالہ سے کہا گیا کہ اس دن بچوں کو جلد کھانا کھلا کر گھر بھیجنے کی ہدایت ملی تھی۔ مڈ ڈے میل پیش کرنے والے باورچی راج پال سنگھ نے کہا کہ 3 دسمبر کو انہیں بچوں کو قبل از وقت کھانا کھلانے اور فوری چھٹی کرنے کی ہدایت ملی تھی لہذا انہوں نے ویسا ہی کیا۔
راج پال سنگھ نے کہا کہ ’’بسیک شکشا ادھیکاری نے صبح 11 بجے ایک پیغام بھیجا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ اجتماع کے سبب صورت حال بہتر نظر نہیں آتی لہذا بچوں کو کھانا کھلا کرجلد گھر بھیج دیا جائے۔‘‘
Published: 06 Dec 2018, 8:09 PM IST
راج پال سنگھ نے کہا کہ باہر (میرٹھ) سے آئے ٹیچروں کو بھی اس دن جلد جانے کے لئے کہا گیا تھا تاکہ وہ ٹریفک جام میں نہ پھنس جائیں۔
واضح رہے کہ بلند شہر میں سہ روزہ تبلغی اجتماع میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ جمع ہوئے تھے لیکن اس کا انعقاد تشدد کے مقام سے تقریباً 45 کلومیٹر کے فاصلہ پر کیا گیا تھا۔ حالانکہ رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ اس کی وجہ سے اسکول کے نزدیک واقع قومی شاہراہ پر جام لگا ہوا تھا۔
ایسے میں یہ سوال کھڑا ہوتا ہے کہ کیا اسکول کے بچوں کو گھر قبل از وقت بھیجنے کا حکم اجتماع کی وجہ سے ہی دیا تھا یا پھر وجہ کچھ اور تھی!
غور طلب ہے کہ بلند شہر تشدد میں اب تک 26 لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ان میں سے 8 ملزمان وی ایچ پی، بجرنگ دل اور بی جے پی یوا مورچہ کے رکن ہیں۔ پولس کی ابتدائی جانچ میں بھی معلوم ہوا ہے کہ تشدد کا مقصد علاقہ میں فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلانا تھا۔
Published: 06 Dec 2018, 8:09 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 06 Dec 2018, 8:09 PM IST