بی جے پی رکن پارلیمنٹ ہرناتھ سنگھ نے آج راجیہ سبھا میں اس قانون کو ختم کرنے کا مطالبہ کر دیا جس میں کہا گیا ہے کہ ملک میں کوئی بھی عبادت گاہ ٹھیک اسی صورت میں رہے جیسا کہ 15 اگست 1947 میں ہے۔ یعنی 15 اگست 1947 میں اگر کسی جگہ پر خاص مذہب کی عبادت گاہ ہے تو اس پر دوسرے مذاہب والے دعویٰ نہیں کر سکیں گے۔ بابری مسجد قضیہ کو اس ’پلیسز آف وَرشپ ایکٹ 1991‘ سے علیحدہ رکھا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ دوسری عبادت گاہوں کے لیے بابری مسجد معاملہ مثال نہیں بنے گا۔ حالانکہ اب اس قانون کو ہی ختم کرنے مطالبہ راجیہ سبھا میں کر دیا گیا ہے۔
Published: undefined
ہرناتھ سنگھ نے اس قانون کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایکٹ آئین میں مذکور برابری و سیکولرزم کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے، جو کہ آئین کی تمہید اور اس کے بنیادی ڈھانچہ کا اٹوٹ حصہ ہے۔ بی جے پی رکن پارلیمنٹ نے یہ بھی کہا کہ یہ ایکٹ عدالتی تجزیہ پر روک لگاتا ہے جو کہ آئین کی بنیادی خصوصیت ہے۔ بی جے پی لیڈر نے اس قانون کو منمانا اور بے معنی قرار دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’یہ قانون ہندو، بودھ، جین اور سکھ طبقات کے ماننے والوں کے مذہبی حقوق کو کم کرتا ہے۔ ساتھ ہی بھگوان رام اور کرشن کے درمیان تفریق پیدا کرتا ہے، جبکہ دونوں ہی بھگوان وِشنو کے اَوتار ہیں۔‘‘
Published: undefined
ہرناتھ سنگھ نے راجیہ سبھا میں آج کی گئی اپنی تقریر کے دوران پی ایم مودی کے کچھ بیانات کا بھی حوالہ دیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’پی ایم مودی نے کہا تھا کہ کوئی بھی ملک اپنے ماضی کو بھول کر، اسے مٹا کر اور اپنی جڑوں کو کاٹ کر کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔‘‘ بی جے پی رکن پارلیمنٹ نے مزید کہا کہ ’’اس قانون (پلیسز آف وَرشپ ایکٹ 1991) کی وجہ سے غیر ملکی حملہ آوروں کے ذریعہ تلوار کی نوک پر گیانواپی اور شری کرشن جنم بھومی سمیت دیگر عبادت گاہوں پر جو قبضہ کیا گیا، اسے پہلے کی حکومت کے ذریعہ قانونی طور سے درست ٹھہرا دیا گیا ہے۔‘‘ پھر وہ کہتے ہیں کہ ’’یکساں عمل اور یکساں حالات کے لیے دو قانون نہیں ہو سکتے۔ کوئی بھی حکومت کسی بھی شہری کے لیے عدالت کے دروازے بند نہیں کر سکتی۔ یہ قانون پوری طرح سے غیر آئینی ہے۔ ایسے میں اس قانون کو ملک کے مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے ختم کرنے کا مطالبہ کرتا ہوں۔‘‘
Published: undefined
قابل ذکر ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ’پلیسز آف وَرشپ ایکٹ 1991‘ کو ختم کرنے کا مطالبہ اٹھا ہے۔ اس سے قبل بھی پارلیمنٹ میں کئی اراکین پارلیمنٹ یہ ایشو اٹھا چکے ہیں۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ تک بھی پہنچ چکا ہے جس پر سماعت ہونی ہے۔ ہندوتوا نظریہ رکھنے والے کچھ لیڈران کا کہنا ہے کہ جس طرح گیانواپی مسجد اور متھرا شاہی عیدگاہ جیسے معاملوں کو بابری مسجد کیس کی طرح ہی دیکھا جانا چاہیے۔ لیکن ’پلیسز آف وَرشپ ایکٹ 1991‘ اس کی اجازت نہیں دیتا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز