چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ رمن سنگھ نے اپنی 14 سالہ حکمرانی سے ناراض عوام کا دل بہلانے اور بی جے پی کے ذریعہ کی گئی نام نہاد ترقی سے انھیں روشناس کرانے کے مقصد سے ’جن آشیرواد یاترا‘ تو نکالی لیکن عوام اس پر کوئی توجہ ہی نہیں دے رہی۔ عوام تو چھوڑیے بی جے پی کارکنان کی تعداد بھی اس ’جن آشیرواد یاترا‘ میں لگاتار کم ہی ہوتی جا رہی ہے۔ 11 مارچ سے شروع ہوئی اس یاترا میں اب یا تو حکومت میں شامل وزراء نظر آ رہے ہیں یا پھر ممبران اسمبلی اور پارٹی عہدیداران۔ گویا کہ عوام نے بی جے پی حکومت سے خود کو دور رکھنے اور انھیں ’آشیرواد‘ نہ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
31 مارچ تک چلنے والی اس یاترا کے فلاپ ہونے کا اعتراف بی جے پی کارکنان بھی کر رہے ہیں اور اس کی ایک وجہ پارٹی کے اندر موجود اختلاف بھی ہے۔ یہ اختلاف 13 مارچ کو اس وقت ظاہر بھی ہو گیا تھا جب پکھانجور ڈویژنل سطح کے بی جے پی عہدیداران اور کارکنان نے استعفیٰ دینے کی دھمکی تک دے ڈالی۔ ان کی ناراضگی اس وجہ سے تھی کہ پارٹی سے ہٹائے گئے کارکنان کو ’جن آشیرواد یاترا‘ میں ترجیح کیوں دی جا رہی ہے۔ پکھانجور ڈویژن کے بی جے پی صدر وکاس پال نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ انھوں نے ایک میٹنگ کی ہے جس میں فیصلہ لیا گیا ہے کہ اگر پارٹی ہٹائے گئے لیڈروں کو واپس بلاتی ہے تو سبھی ڈویژنل عہدیدار استعفیٰ دے دیں گے۔
ایک طرف بی جے پی عہدیداران اور کارکنان کی ناراضگی ہے جو کسی علاقے میں کھل کر سامنے آ چکی ہے اور کسی علاقے میں اندرونی سطح پر جاری ہے، تو دوسری طرف ریاست کے عوام رمن سنگھ حکومت کی لاکھ کوششوں کے باوجود ’جن آشیرواد یاترا‘ میں ان کی بات سننے کے لیے جمع نہیں ہو رہے ہیں۔ اس یاترا پر اپوزیشن پارٹی کانگریس نے بھی طنز کیا ہے۔ کانگریس کے مقامی لیڈروں نے اس پوری یاترا کو ’مذاق‘ قرار دیا ہے۔ 90 اسمبلی حلقوں کا احاطہ کرنے والی اس یاترا سے متعلق جگدل پور کانگریس بھون میں پہنچے چترکوٹ ممبر اسمبلی دیپک بیج نے کہا کہ ’’بی جے پی کی یاترا صرف ایک مذاق ہے۔ اس نے 14 سالوں تک کوئی کام نہیں کیا اور اب جب کہ انتخابات نزدیک ہیں تو بی جے پی فکر مند ہے اس لیے اس طرح کی یاترائیں نکال رہی ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ اگر بی جے پی نے 14 سالوں تک کام کیا ہوتا تو اس طرح کی یاترا نکالنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined