شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف جاری زبردست مظاہروں کے درمیان دہلی اسمبلی انتخاب کی تشہیر کے لیے ’جھونک‘ دئیے گئے بی جے پی کے کئی اراکین پارلیمنٹ کا خود کا اندازہ ہے کہ بھلے ہی ان کی پارٹی کو سیٹیں نہیں ملیں گی، لیکن ووٹ فیصد ضرور بڑھ رہا ہے۔ ان میں سے کئی اراکین پارلیمنٹ پرائیویٹ گفتگو میں اعتراف کرتے ہیں کہ ’’ہماری پارٹی کی سب سے بڑی کمزوری ہے دہلی میں تنظیم کا نہ ہونا اور گروپ بندی، جس کی وجہ سے حالت دگر گوں ہوئی ہے۔‘‘
Published: undefined
دہلی کی سیاست سے باہر ہوئے بی جے پی کو دو دہائی پورے ہو چکے ہیں۔ ان برسوں میں قومی لیڈروں کے آگے پیچھے گھوم کر ان کا ’پچھ لگّو‘ بننے اور ٹکٹ حاصل کرنے کا کلچر بی جے پی کیڈر میں اتنی تیزی سے دہلی میں آگے بڑھا ہے کہ کارکنان کو سیاست مین راتوں رات ترقی کرنے کا یہی ایک آسان راستہ دکھائی پڑا۔ بی جے پی کارکنان اس بار بھی ٹکٹ فروخت کیے جانے کا الزام کھل کر لگا رہے ہیں۔
Published: undefined
بی جے پی کی اندرونی خبر رکھنے والے سیاسی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ تقریباً ایک درجن سیٹوں پر ٹکٹ پچھلی بار کی طرح اس بار بھی فروخت کیے گئے ہیں۔ پارٹی کے محنتی اور ایماندار کارکنان کو درکنار کرنے اور اوپری پہنچ کی بنیاد پر زمینی پہچان نہ رکھنے والے امیدوار اتار دئیے گئے۔
Published: undefined
دہلی میں ان دنوں بی جے پی کی تشہیر میں مصروف ایک سرگرم پارٹی لیڈر نے نام خفیہ رکھنے کی شرط پر کہا کہ ’’اس بار بھی کم و بیش 2015 جیسے حالات دیکھنے کو مل رہے ہیں، جب بی جے پی کو 70 رکنی اسمبلی میں محض 3 سیٹیں ہی نصیب ہو سکی تھیں۔‘‘ بی جے پی کی تنظیمی ناکامی کے یہ حالات تب ہیں جب دہلی کے تینوں میونسپل کارپوریشنوں، این ڈی ایم سی کے علاوہ دلی کنٹونمنٹ بورڈ پر بھی اس کا قبضہ ہے۔
Published: undefined
دہلی کے کستوربا نگر سے بی جے پی کے سابق کونسلر رہے جگدیش ممنگائی دہلی میں نظام قانون کی بدحالی، اراضی قوانین سے جڑی خدمات، این ڈی ایم سی اور کنٹونمنٹ بورڈ میں بی جے پی کی حصولیابیاں شمار کرانے کا کھلا چیلنج کر رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ جو معاملے بی جے پی کے سیدھے کنٹرول میں ہے، ان پر کیے گئے کاموں کو شمار کرانے کے لیے بی جے پی کے پاس کچھ نہیں ہے، اس لیے عوام کا دھیان فرقہ وارانہ پولرائزیشن کرانے کے بہانے بی جے پی نے شاہین باغ، کشمیر میں دفعہ 370 پر اپنی پیٹھ تھپتھپانے اور اول جلول تشہیر کرنے میں ہی اپنی طاقت جھونکی ہوئی ہے۔
Published: undefined
سابق رکن پارلیمنٹ اور سابق صحافی وشو بندھو گپتا اس معاملے میں کہتے ہیں کہ ’’دہلی میں ملک کے گوشے گوشے اور ہر علاقے، زبان، ذات و مذہب کے لوگ رہتے ہیں۔ انھیں مشتعل کر کے اور ان کے درمیان آپسی نااتفاقی پیدا کر کے ووٹ کی سیاست کرنے کی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہوں گی۔‘‘ دہلی میں بڑے پیمانے پر غیر قانونی کالونیوں کو ریگولرائز کرنے کے بی جے پی کے اعلانات پر زیادہ تر لوگوں کو کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ مقامی ووٹروں کا ماننا ہے کہ بی جے پی حکومت کے شہری ترقی کے وزیر نے سیلنگ کو بھلے ہی پوری طرح روک دیا ہو، اور کچھ لوگ بھلے ہی غلط فہمی میں ہوں گے، لیکن سماجی تناؤ پیدا کرنے کے کچھ دنوں کے عمل نے بی جے پی کے مثبت پہلوؤں کو پوری طرح سے ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا ہے۔
Published: undefined
اس کے علاوہ جے این یو میں نقاب پوش جرائم پیشوں کے ذریعہ ہاسٹل میں گھس کر طلبا پر قاتلانہ حملہ کرنے والوں کو ایک ماہ گزرنے پر بھی نہ پکڑنا اور جامعہ کے طلبا پر مسلح خاموش تماشائی پولس کے سامنے ایک سرپھرے کے ذریعہ غیر قانونی کٹّہ سے جامعہ کے طلبا کو گولی مارنے کا حیرت انگیز واقعہ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ دہلی میں شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے نام پر انتخاب میں پولرائزیشن کرانے کی بی جے پی کی کوششیں پوری طرح منصوبہ بند کہانی کا حصہ ہیں۔
Published: undefined
دہلی انتخابی تشہیر ختم ہونے میں جب محض 6 دن بچے ہیں تو بی جے پی کو اب دہلی میں 2 روپے کلو آٹا دینے کا وعدہ کرنا پڑا۔ یعنی 14 جنوری کو دہلی میں الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہونے کے 17 دن بعد بی جے پی کو ووٹروں کو عام آدمی پارٹی کی مفت اسکیموں کے ساتھ قدم تال ملانے کی یاد آئی۔
Published: undefined
دہلی میں بی جے پی اور آر ایس ایس کے اندر دبی زبان سے یہ الزام لگانے والوں کی کمی نہیں ہے کہ قومی لیڈروں کے منفی طریقہ تشہیر نے سول سوسائٹی اور خواتین کے من میں بی جے پی کے اس نئے انداز نے ڈھیر سارے سوال کھڑے کر دئیے ہیں۔ اس سے ایسا لگنے لگا ہے کہ لوک سبھا الیکشن میں مودی کے نام پر ووٹ دینے والے عام غریب اور متوسط طبقہ کے ووٹرس اسمبلی انتخابات میں بی جے پی سے دوری بنا رہے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز