کرناٹک اور گوا کے سیاسی ڈرامہ نے ایک بار پھر یہ سوال کھڑے کر دیئے ہیں کہ کیا ہم پارلیمانی جمہوری نظام کے لائق رہ بھی گئے ہیں یا نہیں۔ ہمارے اس نظام میں بہت سی برائیاں اور خامیاں آ گئی ہیں اور ان سب پر بہت سنجیدگی سے غور کرنے اور ان کے تدارک کے طریقوں پر غور کرنا ہوگا ورنہ ہمارے پارلیمانی جمہوری نظام کا یہ ڈھانچہ چرمرا کر گر جائیگا، انجام کار آمریت ہمارا مقدر بن جائے گی۔
ہم شاید جمہوریت کی قدر اس لئے نہیں کر پا رہے ہیں کیونکہ آزادی کے بعد جمہوریت ہمارے بغیر کسی جدوجہد کے مل گئی تھی ورنہ جن ملکوں کے عوام نے جمہوریت نہیں دیکھی تھی انہوں نے جمہوریت کے حصول کے لئے کیا کیا قربانیاں دی ہیں وہ اپنے پڑوسی ملکوں سے ہی دیکھ سکتے ہیں۔
Published: 21 Jul 2019, 10:10 PM IST
کرناٹک اور گوا میں عہدہ اور پیسے کی لالچ میں جس طرح جمہوری قدروں اور آئینی تقاضوں کو پامال کیا جا رہا ہے وہ بے حد شرمناک ہے اس کی مثال صرف یہی دی جا سکتی ہے کہ شادی کسی کے ساتھ، سہاگ رات کسی کے ساتھ، جو منتخب ممبران اسمبلی یا پارلیمنٹ عہدہ اور پیسے کی لالچ میں اپنی سیاسی وفا داریاں بدلتے ہیں وہ صرف اصولوں، آدرشوں اور نظریات کا ہی سودا نہیں کرتے وہ صرف اپنی پارٹی کو ہی دھوکہ نہیں دیتے بلکہ اپنے ووٹروں کو بھی دھوکا دیتے ہیں، ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتے ہیں ضرورت ایک ایسے قانون کی ہے کہ ایسے تمام قانون ساز نہ صرف اپنی رکنیت سے ہاتھ دھوئیں بلکہ اگلے 6 برسوں تک کوئی بھی سیاسی عہدہ نہ حاصل کر سکیں اور نہ ہی الیکشن لڑ سکیں۔
Published: 21 Jul 2019, 10:10 PM IST
اگرچہ آنجہانی راجیو گاندھی نے دل بدل کی روک تھام کے لئے قانون بنایا تھا اور اس کے بعد بھی اس قانون میں ترمیم کر کے مزید سختیاں شامل کی گئیں لیکن جب آئین اور قانون کی دل سے عزت نہ ہو تو ہر قانون سے بچنے کا راستہ شاطر دماغ ڈھونڈھ ہی لیتے ہیں، بی جے پی کو تو اس میں خاص مہارت حاصل ہے وہ ان جوازوں، تقاضوں اور قانونوں سے بچنے کے وہ وہ راستے تلاش کر لیتی جنھیں سن اور دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اتر پردیش میں کلیان سنگھ کی سرکار بچانے کے لئے اتر پردیش اسمبلی کے اسپیکر کیسری ناتھ ترپاٹھی نے ہاتھ کی جو جو صفائی دکھائی اس کی کاٹ سپریم کورٹ بھی نہیں کر پایا تھا۔
Published: 21 Jul 2019, 10:10 PM IST
اتر پردیش میں جہاں اس نے قسطوں میں دل بدل کا راستہ نکالا وہیں کرناٹک میں اس نے مخالف خیمہ کے لالچی دھوکہ باز اور خود غرض ممبران کی وفاداریاں خریدیں، مطلوب تعداد نہ ہونے اور انھیں سزا سے بچانے کے لئے ان سے استعفی دلوایا پھر انھیں وزیر بنایا اور چھ مہینہ بعد جب ان کی خالی سیٹوں پر الیکشن ہوئے تو ان کو وہیں سے ٹکٹ دے کر جتوا لیا، اگر آئین اور قانون کے صرف الفاظ کو دیکھا جائے تو یہ بالکل سہی اور آئینی طریقہ ہے لیکن اگر آئین کی روح کو دیکھیں تو جمہوری تقاضوں کا قتل ہے۔
Published: 21 Jul 2019, 10:10 PM IST
راج بھونوں میں اپنے آدمی بٹھا کر اس نے گوا سے لے کر شمال مشرق تک جس طرح الیکشن میں اپنی ہار کو جیت میں بدلا ہے وہ ہمارے ملک کی آئینی جمہوریت کے سیاہ باب ہیں۔ یہ درست ہے کہ راج بھون میں اپنے آدمیوں کا بیجا استعمال کرنے میں کوئی پارٹی دودھ کی دھلی نہیں ہے لیکن بی جے پی نے اس فن میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر لی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایک غلط بات دوسری غلط بات کا جواز ہو سکتی ہے اہم سوال اس برائی، اس خامی اور آئین کی روح کی اس پامالی کو روکنے کا ہے جس کے لئے قانون سازی بہت ضروری ہے۔
Published: 21 Jul 2019, 10:10 PM IST
در اصل صرف دل بدل قانون پر ہی نہیں ہمارے پورے جمہوری عمل کو گھن لگ گیا ہے اور پورے نظام پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے جمہوریت کی بنیاد انتخابات ہیں لیکن کیا ہمارے انتخابات سہی معنوں میں عوام کے جذبات، رجحان، امنگوں اور تمناؤں کے عکاس ہیں یا سبھی جائز اور ناجائز طریقوں سے عوام کی ذہن سازی کر کے ان کو انہیں کے اصل مسائل سے دور لے جا کر فروعی مسائل میں الجھا کر ان کا ووٹ حاصل کر لیا جاتا ہے، ان سب کے باوجود بھی کیا جو حکومت بر سر اقتدار آتی ہے وہ عوام کی نمائندہ حکومت ہوتی ہے۔
Published: 21 Jul 2019, 10:10 PM IST
حالیہ پارلیمانی الیکشن کے نتائج کو ذرا گہرائی اور دوسرے رخ سے دیکھیے اور پھر سوچیے کیا یہ نمائندہ حکومت ہے اس نظام کا فائدہ اور نقصان سبھی پارٹیوں نے اٹھایا ہے اس لئے محض بی جے پی ہی اس کا نشانہ نہیں ہے بلکہ سوالیہ نشان اس نظام پر ہی ہے۔ حالیہ پارلیمانی الیکشن میں کل 60 کروڑ ووٹ پڑے ان میں سے 22 کروڑ ووٹ بی جے پی کو 12 کروڑ ووٹ کانگریس کو باقی 26 کروڑ ووٹ دیگر پارٹیاں لے گئیں یعنی آدھے سے بھی کم ووٹ پا کر بی جے پی (کوئی دوسری پارٹی بی ہو سکتی تھی) لوک سبھا میں اتنی بڑی اکثریت پا کر بر سر اقتدار آ گئی ۔کیا اسے نمایندہ حکومت کہا جا سکتا ہے اور کیا یہ ہمارے جمہوری نظام پر سوالیہ نشان نہیں کھڑے کر رہا ہے۔
Published: 21 Jul 2019, 10:10 PM IST
دل بدل ہو یا دیگر برائیاں ان سب کی جڑ مکین ہے دولت نے حقیقت میں جمہوریت اور پارلیمانی نظام کو یرغمال بنا لیا ہے، معمولی گاؤں پردھان، بی ڈی سی، کارپوریٹر اور کونسلر کے الیکشن میں جب کروڑوں روپیہ خرچ کر دیا جاتا ہے تو ایم پی، ایم ایل اے کے الیکشن میں کتنا پیسہ خرچ کیا جاتا ہوگا، اس کا اندازہ ہی نہیں لگایا جا سکتا۔ انتخابات پر نظر رکھنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم اے ڈی آر کی ایک رپورٹ کے مطابق حالیہ پارلیمانی الیکشن میں قریب ساٹھ ہزار کروڑ روپیہ خرچ ہوا ہے، یہ وہ رقم ہے جس کا حساب اے ڈی ار حاصل کر سکی ہے چور دروازہ سے کتنا پیسہ خرچ ہوا اس کا فی الحال ندازہ نہیں لگایا جا سکا ہے، لیکن مبصرین کا خیال ہے کہ یہ مذکورہ رقم سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہے یعنی عام انتخابات میں قریب ایک سو ہزار کروڑ روپیہ خرچ ہوا ہے اس میں وہ سرکاری اخراجات شامل نہیں ہیں جو وزیر اعظم اور وزرائے اعلی کے سرکاری دوروں اور جلسوں کے انتظام میں سرکاریں خرچ کرتی ہیں، سوچا جا سکتا ہے کہ جب الیکشن اتنا منہگا ہوگا تو عام سیاسی کارکن جو ایمانداری سے خدمت کے جذبہ کے ساتھ سیاست کے میدان میں قدم رکھتا ہے وہ الیکشن لڑنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا ہے۔
Published: 21 Jul 2019, 10:10 PM IST
وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے پورے انتخابی نظام پر از سر نو غور کریں دولت کے بے شرم اور بے غیرت مظاہرہ پر قدغن کے لئے کوئی ٹھوس اور انقلابی طریق کار نافذ کریں خود غرضی اور لالچ کی سیاست کے بجائے خدمت اور نظریات کی سیاست کو پھر میدان میں لائیں ورنہ کارپوریٹ گھرانوں کی دولت کے بل پر حکومتیں بنتی رہیں گی، جواب میں کارپوریٹ گھرانوں کو ملک کی دولت اور وسائل ہی نہیں عوام کے منہ سے روٹی تک چھین لینے کی چھوٹ ملی رہے گی جیسا کہ ہم اندھادھند نجکاری اور سرمایہ نکاسی کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ جمہوریت ہندوستان کے ہر طبقہ کے غریبوں، محروموں درج فہرست اقوام و قبائل اور اقلیتوں کے لئے بزرگ کے ہاتھ کی لاٹھی جیسی ہے یہ لاٹھی چھن جائے تو اس کے اثرات بد فاشزم کی شکل میں نمودار ہوں گے۔
Published: 21 Jul 2019, 10:10 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 21 Jul 2019, 10:10 PM IST