حیدرآباد میں 27 جنوری 1922 کو پیدا ہونے والے اجیت کا اصل نام تو حامد علی خان تھا اور اسی نام کے ساتھ وہ ممبئی میں ہیرو بننے کی امید کے ساتھ پہنچے تھے۔ لمبی اور سخت جد و جہد کے بعد وہ ہیرو بن بھی گئے لیکن محض دو تین فلموں میں ہی ان کا نیا نام ’اجیت‘ رکھ دیا گیا۔ اور اس کے بعد حامد علی خان تاحیات اجیت کے نام سے ستارہ بن کر چمکتے رہے۔
سخت تاثرات والے اجیت نے بطور ہیرو 88 فلموں میں کام کیا لیکن ہٹ محض ایک ’بے قصور‘ رہی۔ نوتن اور نرگس کو چھوڑ کر اجیت نے اس دور کی تقریباً تمام ہیروئنوں کے ساتھ کام کیا۔ معاون اداکار کے طور پر دلیپ کمار کے ساتھ ’نیا دور‘ اور ’مغل اعظم‘ میں اجیت نے ثابت ضرور کیا کہ وہ اداکاری میں کسی بھی طرح کمزور نہیں ہیں، ہاں یہ بات ضرور ہے کہ انہیں معاون اداکار کے طور پر انہیں کوئی یادگار کردار ادا کرنے کو نہیں مل سکا۔ رفتہ رفتہ اجیت کے پاس دوئم درجے کی فلمیں ہی رہ گئیں۔
اجیت کا سورج کچھ وقت کے لئے غروب ضرور ہونے لگا لیکن اس کے بعد ان کی زندگی میں نئی صبح روشن ہونے والی تھی۔ اپنے دوست اداکار راجیندر کمار کے کہنے پر اجیت نے فلم ’سورج‘ میں ویلن کا کردار ادا کیا۔ حالانکہ ان کی زندگی میں اہم موڑ 1973 میں آنے والی فلم ’زنجیر‘ لے کر آئی۔ اس فلم میں اجیت نے ایک ایسے صنعت کار دھرم پال تیجا کا کردار نبھایا جو بہت ہی ناپ تول کر خاص انداز میں گفتگو کرتا ہے۔ یہ اصل زندگی سے وابسہ کاردار تھا جس سے حیدرآباد میں اجیت کی ملاقات ہو چکی تھی۔ اجیت اس کے ٹھہر ٹھہر کر نپے تلے الفاظ کو نرمی سے بولنے کے لہجہ سے کافی متاثر ہوئے تھے۔
Published: undefined
جب زنجیر کے رائٹر سلیم-جاوید نے ان سے کہا کہ دھرم پال تیجا کے کردار کو مؤثر بنانے کے لئے اپنی طرف سے کچھ سوچیں تو اجیت کو فوراً حیدرآباد کے صنعت کار کی یاد آگئی۔ اجیت نے اس کے انداز میں ہی سلیم-جاوید اور ہدایت کار پرکاش مہرا کو ڈائیلاگ بول کر سنائے۔ تینوں کو اجیت کا یہ انداز بہت پسند آیا۔ اور یہی انداز ہمیشہ کے لئے اجیت کی پہچان بن گیا۔ ویلن بھی مہذب اور نرم لہجہ میں بات کرنے والا ہوسکتا ہے یہ اجیت نے ثابت کر کے دکھایا۔
شیروانی کا بند گلے کا کوٹ یا پھر تھری پیس سوٹ پہنے، گلے میں موتیوں کی مالا لٹکائے، دھاردار مونچھوں کے ساتھ ٹھسکے سے سگار یا پائپ سلگاتے ہوئے اجیت کی شبیہ نے ویلن کے کرداروں کو نئی جہت بخشی۔ وہ زیادہ تر ایسے کاروباری یا سماجی خدمت گار کے طور پر نظر آتے تھے جو پردے کے پیچھے برا کام کرتا ہے۔
الفاظ کو مخصوص انداز میں جما جما کر بولنے کا ان کا انداز فلم ’یادوں کی بارات‘، ’جگنو‘، ’وارنٹ‘، ’کہانی قسمت کی‘، ’سنگرام‘ اور ’چرس‘ جیسی تقریباً 50 فلموں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ ایسے ویلن کے طور پر پردے پر نظر آتے تھے جس کے سامنے ہیروں کی چمک بھی پھیکی پڑ جاتی تھی۔ ویلن کے دور بدلتے گئے لیکن اجیت کو اپنا انداز بدلنے کی کبھی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ لیکن ایک دن تو انہیں اداکاری سے سبکدوش ہونا ہی تھا۔
Published: undefined
بات 1984 کی ہے جب اجیت ایک فلم کی شوٹنگ کے لئے عین 10 بجے میک اپ کر کے شاٹ دینے کے لئے پہنچ گئے لیکن ہیرو شام ساڑھے چار بجے تک سیٹ پر نہیں پہنچا۔ اجیت کے ساتھ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا تھا۔ اکثر وہ سیٹ پر تیار ہو کر شاٹ کا انتظار کرتے رہتے اور فلم کا ہیرو سیٹ پر کافی دیر سے پہنچتا۔ بے شمار فلموں کا سفر طے کرنے والے اجیت کے لئے یہ غیر پیشہ ورانہ رویہ ناقابل برداشت ہوتا چلا گیا اور ایک دن انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اب فلموں میں کام نہیں کریں گے۔
اس کے بعد اجیت حیدرآباد میں رہنے لگے اور دھیرے دھیرے خبروں سے غائب ہوگئے۔ ممبئی کی فلمی دنیا میں کئی لوگوں کو لگا کہ شائد اجیت اب دنیا میں نہیں رہے لیکن ’لائن مرا نہیں تھا۔‘ ہاں وہ اپنے آپ تک محدود ہو کر وقت کی تیز رفتار کو ضرور دیکھ رہا تھا۔
اور ایک دن اجیت نے دوبارہ پردے کا رُخ کیا۔ وہ جس طرح اچانک سے چلے گئے تھے اسی خاموشی سے لوٹ بھی آئے۔ پولس افسر، جگر، آتش، شکتی مان اور بے تاج بادشاہ سمیت کچھ اور فلمیں کرتے کرتے ان کی صحت جواب دینے لگی۔ کریمنل ان کی آخری فلم تھی۔ 23 اکتوبر 1998 کو اجیت انتقال کر گئے لیکن لائن آج بھی مرا نہیں اور آج بھی وہ اپنے جاندار ڈائیلاگ کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز