بہار میں ان دنوں پیسوں کے لیے مارا ماری ہو رہی ہے۔ نہ تو بینکوں میں پیسہ ہے اور نہ ہی اے ٹی ایم میں۔ راجدھانی پٹنہ کا بھی بہت برا حال ہے۔ لوگوں کو پیسے کے لیے در در بھٹکنا پڑ رہا ہے۔ بینک افسران اس کے لیے آر بی آئی کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آر بی آئی سے انھیں ضرورت کے مطابق کیش نہیں مل پارہا ہے۔ یہ حالت سرکاری اور پرائیویٹ دونوں ہی بینکوں کی ہے۔
’قومی آواز‘ سے بات چیت کرتے ہوئے ایس بی آئی کے ایک صارف ابھینندن کمار نے بتایا کہ ’’مجھے بے حد ضروری کام کے لیے دس ہزار روپے کی ضرورت تھی لیکن 10 اے ٹی ایم گھومنے کے بعد بھی مجھے پیسہ نہیں ملے۔ ایک پرائیویٹ بینک کے اے ٹی ایم سے محض 4000 روپے ہی ہاتھ آئے اور اس کے لیے اب میرے اکاؤنٹ سے ٹرانجیکشن چارج بھی کٹ جائے گا۔‘‘ ابھینندن نے مزید بتایا کہ وہ پیسہ نکالنے بینک برانچ بھی گئے تھے لیکن انھیں اگلے دن آنے کے لیے کہا گیا۔
اسی طرح ایک 50 سالہ شخص بھی تین بار اے ٹی ایم کے چکر لگا چکے ہیں لیکن انھیں پیسہ نہیں ملا۔ تھک ہار کر انھوں نے دوسرے شہر میں کام کر رہے اپنے بیٹے سے کچھ پیسے کسی کے ہاتھ بھیجنے کے لیے کہا۔ اس قلت پر ایس بی آئی آفیسرس ایمپلائی ایسو سی ایشن کے سربراہ اوما کانت سنگھ کہتے ہیں کہ ان کی برانچوں میں ضرورت کے مطابق پیسہ ہے ہی نہیں۔ وہ ’قومی آواز‘ سے کہتے ہیں کہ ’’ہماری چیسٹ صلاحیت 12 ہزار کروڑ روپے ہے لیکن آر بی آئی سے ہمیں صرف 2.5 ہزارکروڑ روپے ہی مل رہے ہیں۔ ان میں سے بھی 600 کروڑ روپے بہار میں لگے ایس بی آئی کے 1500 اے ٹی ایم میں چلے جاتے ہیں۔‘‘
Published: undefined
اوما کانت سنگھ نے بتایا کہ پہلے انھیں نقدی لانے کے لیے سال میں ایک دو بار ہی آر بی آئی جانا ہوتا تھا، لیکن اب ہر مہینے دو بار جانا پڑتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے پیسے لانے کا خرچ بھی بڑھ رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر آر بی آئی ہی پیسے نہیں دے گا تو ہم کیسے ضرورت پوری کریں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے حالات اس سے پہلے کبھی نہیں رہے ہیں۔
کچھ خبروں کے مطابق بہار کے کئی علاقوں کے بینکوں میں 2000 اور 500 روپے کے نوٹوں کی زبردست کمی ہے۔ ساتھ ہی 200 روپے کے نوٹ کے لیے ابھی تک سارے اے ٹی ایم کو کیلیبر نہیں کیا گیا ہے۔ اوما کانت سنگھ کہتے ہیں کہ ’’اب تو 2000 روپے کے نوٹ آ ہی نہیں رہے ہیں۔ ہمیں سننے کو ملا ہے کہ حکومت نے 2000 کے نئے نوٹ چھاپنا بند کر دیے ہیں۔‘‘ موجودہ حالات پر انھوں نے ہاتھ کھڑے کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمیں نہیں پتہ کہ یہ حالت کب تک رہے گی۔‘‘
انھوں نے حکومت کے ڈیجیٹل ہونے کی پالیسی کی تنقید کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ حکومت نے کیش لیس کا نعرہ تو دے دیا لیکن لوگوں کو یہ پتہ ہی نہیں ہے کہ کیش لیس عمل کیسا ہے۔ گاؤں میں رہنے والوں کو آخر کس طرح کیش لیس کیا جا سکتا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined