بہار اسمبلی کی 243 سیٹوں کے لیے 4 بجے تک جو رجحانات سامنے آئے ہیں، اس کے مطابق این ڈی اے بڑی مشکل سے اکثریت حاصل کرتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ مہاگٹھ بندھن نے این ڈی اے کو زبردست ٹکر دی ہے اور کم و بیش تین درجن سیٹیں ایسی ہیں جہاں ووٹوں کا فرق 1000 سے بھی کم ہے۔ بہار میں حکومت سازی کے لیے 122 سیٹوں کی ضرورت ہوگی اور این ڈی اے امیدوار 123 سیٹوں پر آگے نظر آ رہے ہیں، جب کہ مہاگٹھ بندھن امیدوار 110 سیٹوں پر اور ایل جے پی و دیگر پارٹی امیدوار 10 سیٹوں پر آگے ہیں۔
Published: undefined
جو رجحان سامنے آئے ہیں اس میں اگر پارٹیوں کی کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو بی جے پی کے لیے خوشی کی خبر سامنے آ رہی ہے، کیونکہ وہ سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھر رہی ہے۔ 4 بجے تک جو رجحانات سامنے آئے ہیں، اس کے مطابق 73 سیٹوں پر بی جے پی آگے ہے اور 71 سیٹوں پر آر جے ڈی امیدوار نے سبقت بنائی ہوئی ہے۔ مشکلیں نتیش کمار کی پارٹی جنتا دل یو کے سامنے نظر آ رہی ہیں جن کے محض 43 امیدوار آگے ہیں۔ گویا کہ جنتا دل یو کو انتخاب میں زبردست خسارہ کا سامنا ہو سکتا ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ این ڈی اے کی طرف سے وزیر اعلیٰ کا چہرہ نتیش کمار تھے، لیکن ایسی صورت میں جب کہ جنتا دل یو سے تقریباً دوگنی سیٹیں بی جے پی کو حاصل ہو رہی ہیں، تو نتیش کے خلاف بی جے پی میں آوازیں اٹھ سکتی ہیں۔
Published: undefined
یہاں قابل غور یہ بھی ہے کہ ایل جے پی نے بہار میں این ڈی اے سے علیحدہ ہو کر اسی لیے انتخاب لڑا کیونکہ اسے نتیش کمار وزیر اعلیٰ کی شکل میں قبول نہیں۔ چونکہ این ڈی اے اور مہاگٹھ کے درمیان سخت مقابلہ دیکھنے کو مل رہا ہے، اور اگر ایل جے پی ’کنگ میکر‘ کی شکل میں ابھر کر سامنے آئی، تو نتیش کمار کے لیے مشکلیں کھڑی ہو سکتی ہیں۔ ایل جے پی سربراہ چراغ پاسوان نے کئی بار اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ بی جے پی کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں، لیکن جنتا دل یو کے ساتھ کبھی نہیں، نتیش کمار کا وزیر اعلیٰ بننا کسی بھی صورت قبول نہیں۔ چراغ پاسوان لگاتار نتیش کمار کے خلاف بیان بازی کر رہے ہیں اور ان کی جگہ کسی دوسرے کو وزیر اعلیٰ بنائے جانے کے حق میں ہیں۔ اب دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ بہار کا فائنل ریزلٹ جب آتا ہے تو کس پارٹی کے حصے میں کتنی سیٹیں آتی ہیں، اور حکومت سازی کے لیے تگ و دو کی حالت بنے گی یا پھر کوئی اتحاد بہ آسانی برسراقتدار ہوگا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز