بھیما-کوریگاؤں تشدد معاملے میں پونے کے ڈپٹی میئر ڈاکٹر سدھارتھ دھینڈے کی صدارت میں 9 رکنی ٹیم نے کولہاپور رینج کے آئی جی پی کو جو رپورٹ سونپی تھی، اس میں کئی حیران کرنے والی باتیں سامنے آئی ہیں۔ خبروں کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تشدد منصوبہ بند تھا جسے روکنے کے لیے پولس نے قصداً کچھ نہیں کیا۔ رپورٹ میں تشدد کو سازش کا نتیجہ بتایا گیا ہے اور ساتھ ہی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہندوتوا پرست لیڈروں ملند ایکبوٹے اور منوہر بھڑے عرف سنبھا جی بھڑے تقریباً 15 سال سے وہاں پر تشدد پھیلانے کی تیاری کر رہے تھے۔
اطلاعات کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تشدد سے پہلے گاؤں میں کیروسین سے بھرے ٹینکر لائے گئے تھے اور ساتھ ہی لاٹھی و تلواریں بھی پہلے سے ہی رکھی گئی تھیں۔ رپورٹ میں پولس کے طریقہ کار پر بھی انگلی اٹھائی گئی ہے۔ اس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ تشدد سے پہلے اس کی اطلاع دینے کے باوجود پولس خاموش تماشائی بنی رہی۔ تشدد پھیلانے والے آپس میں یہاں تک باتیں کرتے ہوئے دیکھے جا رہے تھے کہ ’’فکر مت کرو، پولس ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ اتنا ہی نہیں، رپورٹ میں اس بات کا بھی تذکرہ ہے کہ سادی وردی میں موجود پولس تشدد پر آمادہ بھیڑ کو روکنے کی جگہ اس کے ساتھ چل رہی تھی۔
Published: undefined
ہندوتوا طاقتوں کے ذریعہ علاقے میں ماحول خراب کرنے کی کوششوں سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سنبھاجی مہاراج کی سمادھی کے پاس گووند گائیکواڈ کے بارے میں بتانے والا بورڈ لگا ہوا تھا جنھوں نے سنبھا جی مہاراج کی آخری رسومات ادا کی تھی اور ان کا تعلق نچلی ذات سے تھا۔ لیکن اس بورڈ کو ہٹا کر آر ایس ایس کے بانی بی ہیڈگیوار کی تصویر لگا دی گئی جو کسی بھی طرح مناسب نہیں تھا۔ یہ قدم نچلی اور اونچی ذات کے درمیان تلخی پیدا کرنے کی کوشش تھی۔ اگر پولس نے فوری طور پر کوئی قدم اٹھایا ہوتا تو تشدد کے واقعہ کو روکا جا سکتا تھا۔ رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ سناسواڑی کے لوگوں کو تشدد کے بارے میں پہلے سے ہی معلوم تھا اس لیے علاقے کی دکانیں اور ہوٹل بند رکھے گئے تھے۔ اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی پولس نے اگر شر پسند عناصر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی تو اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
قابل ذکر ہے کہ پونے کے شنیرواڑا میں 31 دسمبر 2017 کو ایلگر کونسل کی تقریب کا انعقاد ہوا تھا۔ اس کے بعد یکم جنوری 2018 کو بھیما-کوریگاؤں میں جلوس نکال رہے دلت طبقہ کے لوگوں پر اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والے لوگوں نےمبینہ طور پر حملہ کر دیا تھا جس کے بعد تشدد کی آگ بھڑک گئی تھی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined