گجرات اسمبلی انتخابات کا نتیجہ چاہے جو بھی ہو لیکن گجرات تبدیلی کی طرف گامزن ہے۔ گجرات کی سیاست کو سمجھنے والے اس بات کو بخوبی محسوس کر رہے ہیں کہ فضا بدل رہی ہے ، بی جے پی کے خلاف سطح کے اوپر اور سطح کےنیچے دونوں جگہ ’ کرنٹ ‘ ہے ۔ لو گ بول رہے ہیں، غصہ ظاہر کر رہے ہیں۔ اسمبلی کے لئے ہونے والے پہلے مرحلے کی پولنگ کا مزاج سورت شہر بخوبی بیان کر رہا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی وٹروں کو مائل کر نے کے لئے ہر طرح کے جملے اورحربوں کا تجربہ کر چکے ہیں ،جسے پٹیل طبقہ اب ’ایموشنل اتیاچار‘ کا لقب دینے لگا ہے۔
گجرات کے تمام علاقوں کے لوگ سورت شہر میں قیام پزین ہیں بلکہ یو ں کہا جائے کہ ملک بھر کے لوگ یہاں روزگار کے سبب یہاں آئے اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ رائے شماری اور اکنامک سروے کے اعدادو شمار کے مطابق یہاں کی 58 فیصد آبادی باہر سے آئے لوگوں کی ہے۔ سورت کا تقریباً ہر ایک علاقہ ایک خاص ذات یا سماج کے گڑھ کے طور پر مانا جاتا ہے۔ سورت کے وارچھا روڈ، کامریج، کرنج میں پاٹیداروں کا اثر ہے۔ کتارگام ، اولپاڈ اور شمالی سورت میں بھی انہیں کا بول بالا ہے ۔ چوریاسی میں شمالی ہندوستان کے باشندے رہتے ہیں ، لمبایت میں مراٹھی اور مغربی سورت میں مسلمان اور ان میں بھی میمن طبقہ اکثریت میں ہے۔ کئی اسمبلی حلقوں میں بنکروں کی بھی اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔ ان تمام طبقات میں بی جے پی سے ناراضگی کی اپنی اپنی وجہ ہے۔
سماجی تنظیموں نے محاذ سنبھالا
تمام گجرات میں سماجی تنظیموں کی طرف سے مشترکہ طور پر چلائی جارہی ’لوک شاہی بچاؤ ‘ نامی تحریک کافی مقبول ہو رہی ہے۔ سماجی کارکن شبنم ہاشمی، دیو دیسائی ا ور پرساد وغیرہ کی ٹیمیں سورت کے مختلف علاقوں میں لوگوں سے اپنے ووٹ کے تئیں بیداری کی ترغیب دے رہی ہیں۔ ان ٹیموں کی توجہ خصوصاً ان علاقوں پر ہے جہاں کا پولنگ فیصد عموماً کم رہتا ہے۔
ووٹروں کو بیدار کرنے کے مقصد سے رکھی گئی ایک میٹنگ ، مغربی سورت میں ہوئی، جس میں مسلم مومن برادری نے شرکت کی۔ مومن جماعت سے وابستہ فیصل راجوانی نے بتایا ’’ ہمارے یہاں لوگ ووٹ نہیں ڈالتے۔ انہیں لگتا ہے کہ ووٹ سے تقدیر نہیں بدل سکتی۔ گزشتہ دفعہ 40 فیصد لوگوں نے ہی اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا تھا۔ اس بار ہماری پوری کوشش ہے کو تمام لوگ اپنے گھروں سے نکلیں اور ووٹ ڈالیں۔‘‘
میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے شبنم ہاشمی نے کہا ’’ جمہوریت کی حفاظت کے لئےاس لڑائی میں ایک ایک ووٹ قیمتی ہے۔ ذرا سوچئے کہ آپ کا ووٹ ملک کی سلامتی کے حق میں جا رہا ہے۔ یہاں موجود ہر شخص کم از کم 50 لوگوں کو فون کر کے ووٹ دینے کی اپیل کرے۔‘‘ شبنم کی اپیل کا اثر بھی لوگوں میں دکھائی دیا اور اگلے ہی دن مومن سماج کی طرف سے خواتین کو بیدار کرنے کے ارادے سے میٹنگیں منعقد کی گئیں۔
سورت میں آر ٹی آئی کارکن اجے جانگڑ نے بتایا ’’ ماحول بی جے پی کے خلاف بنا ہوا ہے۔ حالانکہ ابھی سورت کے لوگوں کو اس بات پر پوری طرح اعتبار نہیں ہے کہ بی جے پی ہار جائے گی۔ پھر بھی لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر 70 فیصد لوگ مل جائیں گے تو بی جے پی کی حالت خراب ہو جائے گی۔ ‘‘ جانگڑ نے مزید کہا ’’اس بار مذہب کے نام پر بٹوارے کا کارڈ نہیں چل پا رہا ہے کیوں کہ تما م طبقات اور ذاتیں اپنے حقوق کا مطالبہ کر رہی ہیں۔‘‘
گڑبڑی کے خدشات
ووٹروں میں مختلف قسم کے خدشات پائے جا رہے ہیں۔ نوجوان پٹیلوں کو بالخصوص یہ خوف ہے کہ پولنگ میں گڑبڑی ہو سکتی ہے۔سورت کے وارچھا علاقہ کے رہائشی دنیش کھاکھوریا کا کہنا ہے ’’ بی جے پی کو اگر یہ لگے گا کہ وہ ہارر ہی ہے تو وہ کچھ بھی کر سکتی ہے۔ اس لئے بی جے پی اپنے لوگوں سے کہہ رہی ہے کہ دس سے ساڑھے دس بجےتک اپنا ووٹ ضرور ڈال لیں۔ ‘‘ دنیش کا کہنا ہے ’’اگر بی جے پی ایسا کر رہی ہے تو ہم بھی اس کے لئےتیار ہیں۔‘‘
تاجر اور سماجی کاموں میں دلچسپی رکھنے والی پائل جاویری نے کہا ’’ بی جے پی ڈرانے کے موڈ میں آ گئی ہے ۔ کل جس طرح وزیر اعظم نے یہ کہا کہ اگر بی جے پی کو ووٹ نہیں دیا تو سورت کو بین الاقوامی ہوائی اڈہ نہیں مل پائے گا، یہ ایک شرم ناک بات ہے۔‘‘ جاویری نے مزید کہا ’’ جی ایس ٹی اور نوٹ بندی ہماری زندگی میں عذاب بن کرآئی ہے۔ مہنگائی کی مار بھی ہر طرف ہے ان سب باتوں کو چھوڑ کر مودی ڈرامہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اب دیکھنا بس یہ ہے کہ ای وی ایم کیا گل کھلاتی ہے۔‘‘
اقلیتی طبقہ کے سوالات
پڑھائی چھوڑ کر چھوٹے-موٹے کاروبار میں لگے 26 سالہ جنید احمد کا کہنا ہے کہ اقلیتی طبقہ میں خوف ہے کہ ہمیں ووٹ دینے بھی دیا جائے گا کہ یانہیں۔ ان کا یہ خوف ان خبروں کی وجہ سے ہے جو اتر پردیش کے بلدیاتی انتخابات کے وقت سامنے آئی تھیں ۔جن کے مطابق کافی تعداد میں لوگوں کے نام ووٹر لسٹوں سے غائب کر دئے گئے تھے۔
جمہوریت کا سوال
گجرات 2002 کے قتل عام میں ہلاک ہونے والے احسان جعفری کے بیٹے تنویر جعفری سورت میں ہی رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چناؤ میں حال یہ ہو گیا ہے کہ اقلیتی طبقے سے کوئی ووٹ مانگنے بھی نہیں آتا۔ پارٹیوں کے امیدواروں کو اتنا خوف ہے کہ اگر وہ ہم لوگوں سے ووٹ مانگنے گئے تو کہیں ہندو ووٹ بینک نہ کھسک جائے۔‘‘ جعفری کا کہنا ہے کہ ’’ ایسے حالات میں جمہوریت کیسے چلے گی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں بھی ووٹ دینے کے تئیں کوئی جوش و خروش نہیں ہے۔‘‘
ٹیکسٹائل مزدوروں کے درمیان کام کرنے والے زری والا ارشد کا ماننا ہے کہ ٹیکسٹائل مزدوروں اور مالکان میں بی جے پی کے خلاف زبردست غصہ ہے ، اس کا اثر پولنگ میں دکھائی دینا چاہئے۔ ‘‘
ساڑیوں میں زری ستارے لگانے والی رخسانہ نے بھی غصہ میں کہا ’’ ہم نے خون پسینے سے سورت کو چمکایا ہے۔ ہمیں جی ایس ٹی نے مار ڈالا ہے ۔ مہنگائی کی مار ہر چیز پر ہے۔ وکاس کس کا ہوا ہے ہمیں تو خبر نہیں۔ ہم کچھ بولیں تو کہتے ہیں کہ تم تو مسلمان ہو۔ ہاں ہم مسلمان ہیں لیکن ہم بھی تو گجراتی ہیں اور ہندوستانی بھی ہیں۔
Published: undefined
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ <a href="mailto:contact@qaumiawaz.com">contact@qaumiawaz.com</a> کا استعمال کریں۔ ساتھ ہیہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز