ایودھیا میں 25 سال قبل 6 دسمبر 1992 کو تاریخی بابری مسجد کی شہادت میں ملوث بلبیر سنگھ قبول اسلام کے بعد محمد عامر بن چکا ہے اور اپنے اس فعل کے کفار ہ کے طورپر انہوں نے 100مساجد تعمیر کرنے کا عزم کیا ہے اور اب تک 35 مساجد تعمیرکراچکے ہیں۔ وہ تاریخ،سیاسیات اور انگریزی میں ایم اے ہیں۔
بابری مسجد کی شہادت کے بعد وہ اپنے ضمیرکے قیدی بن گئے اور دل میں ایمان کی شمع روشن ہونے کے بعد اپنے اس گناہ سے معافی مانگ لی۔
محمد عامر کا تعلق ہریانہ کے پانی پت کے ایک گاؤں سے رہا ہے اورپھر ان کے خاندان نے ہجرت کرکے شہر کا رُخ کیا اور روہتک یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ حال میں ممبئی سے قریب مالیگاؤں کے دوران انہوں نے بتایا کہ بچپن سے وہ آرایس ایس کی مقامی شاخ سے وابستہ رہے اور پھر شیوسینا میں شمولیت اختیار کرلی۔بال ٹھاکرے نے انہیں متعارف کرایا تھا۔بلبیر سنگھ کے والد دولت رام گاندھیائی نظریات کے حامل تھے اور تقسیم ملک کے دوران مسلمانوں کی ہرطرح سے مدد کی تھی اور ان کے والدین نے دونوں بھائیو ں کو بھی بہتری کے کام کے لیے نصیحت کی تھی کہ ان نقش قدم پر چلیں۔
محمد عامر کا کہنا ہے کہ بابری مسجد پر ہتھوڑا چلانے کے ساتھ ہی ان کے اندربے چینی بڑھ گئی ،لیکن مسلمانوں کے بارے میں دل ودماغ میں بھری نفرت نے مسجد پر مزید وار کرنے پر اکسایا اور اس درمیان طبیعت مزید بگڑی اور دوستوں نے مسجد کی شہادت کے بعد پانی پت منتقل کیا جہاں وہ دواینٹ بھی ساتھ لے گئے جوکہ ابھی شیوسینا کے مقامی دفترمیں رکھی ہے۔
والد نے گھر کے دروازہ بند کردیئے کہ ایک استاد کے بیٹے نے ایک غلط کام میں حصہ لیا ۔شہر میں استقبال ہوا ،لیکن دل کو چین نہیں تھا ،ڈاکٹر سے رجوع کیا گیا تو جانچ کے بعد ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ تم دوتین مہینے سے زیادہ زندہ نہیں رہو گے ،جبکہ ان کا ساتھی یوگیندرپال جو شہادت میں شامل تھا ،پاگل ہوگیا اور اپنے گھر کی عورتوں کو دیکھ کر کپڑے پھاڑنے لگا ،دنیوی اور روحانی علاج سے کوئی فرق نہیں پڑا تب مقامی مولانا کلیم صدیقی سے رابطہ کیا گیا اور انہوں نے مشورہ دیا کہ مسجد کو مسمار کرنے کے گناہ کے لیے اللہ سے معافی مانگ لی جائے تب اپنے والدکے ساتھ وہ مقامی مسجد کے سامنے کھڑے رہ کر توبہ کری اور پھر اسکی طبیعت سنبھل گئی ،جس کے بعد 1993میں بلبیر سنگھ(محمد عمر) اور اس کا باپ مشرف بہ اسلام ہوگئے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ بات عام ہونے کے بعد 27کارسیکوں نے اسلام قبول کرلیا۔
محمد عامر کے مطابق یوگیندر پال کی باتیں سننے کے بعد وہ بھی سکون وچین کے لیے اسلام کی آغوش میں آگئے اور پھر زندگی دوبارہ رواں دواں ہے۔
Published: 02 Jan 2018, 11:23 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 02 Jan 2018, 11:23 AM IST
تصویر: پریس ریلیز