نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے طلاق کے معاملے میں ایک اہم فیصلہ دیا ہے۔ عدالت نے ایک شخص کو اس کی بیوی کے اپنے والدین کے زیر اثر رہنے یا اپنے والدین کو چھوڑ کر شوہر کے ساتھ نہ رہنے کو شوہر پر ظلم قرار دیتے ہوئے طلاق کی منظوری دے دی ہے۔ ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ اب ان تمام معاملات میں ایک نظیر بن سکتا ہے جن میں بیویاں اپنے والدین کے ساتھ رہنے کی ضد کرتے ہوئے شوہر کے ساتھ رہنے سے انکار کر دیتی ہے۔
Published: undefined
دہلی ہائی کورٹ میں جسٹس سریش کمار کیت کی سربراہی والی بنچ نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ خاتون کے میکے کے لوگ اس کی ازدواجی زندگی میں ’غیر ضروری مداخلت‘ کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے شوہر کو ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہائی کورٹ نے فیملی کورٹ کے حکم کے خلاف شوہر کی اپیل پر اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ’’دونوں فریق تقریباً 13 سال سے الگ رہ رہے ہیں، اس دوران شوہر کو اس کے ازدواجی رشتے سے محروم کر دیا گیا جو ایک طرح سے ظالمانہ و اذیت ناک اقدام ہے۔
Published: undefined
اس سے قبل فیملی کورٹ نے شوہر کی طلاق کی درخواست قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ہائی کورٹ بنچ نے اپنے حکم میں کہا کہ ’’ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اپیل کنندہ (شوہر) نے کامیابی سے ثابت کیا ہے کہ مدعا علیہ (بیوی) نے اسے ظلم کا نشانہ بنایا اور وہ طلاق کی حقدار ہے۔‘‘ عدالت نے کہا کہ ’’بیوی کا طرز عمل درخواست گزار کے اس بیان کی واضح طور پر تصدیق کرتا ہے کہ وہ اپنے والدین کے زیر اثر تھی اور ان سے علاحدہ ہونے اور درخواست گزار کے ساتھ تعلق رکھنے میں اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔‘‘
Published: undefined
ہائی کورٹ نے مزید کہا ہے کہ ’’واضح طور پر شادی اور اس کے ساتھ دیگر ذمہ داریوں کو مسترد کر دیا گیا۔ مدعا علیہ کے اس طرز عمل کو درخواست گزار کے ساتھ ذہنی ظلم ہی کہا جا سکتا ہے۔ اس رشتے کو جاری رکھنے کی کوئی بھی کوشش دونوں پر مزید ظلم کا باعث بنے گی۔ اس معاملے میں شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ دونوں فریقوں میں صلح کا کوئی امکان نہیں۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined