بابری مسجد کا تنازعہ دور مغلیہ ،برطانوی حکومت اور پھر آزادی کے بعد بھی برقرار رہا۔ اب آخر کار 9 نومبر 2019 کو سپریم کورٹ نے اس پر فیصلہ سنایا ۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ متنازع زمین رام للّا کو دی جائے اور دوسرے ہندو فریق نرموہی اکھاڑا کو بھی اس میں حصہ داری دی جائے ۔ جبکہ مسجد کا دعوی سپریم کورٹ نے خارج کر دیا ۔ تاہم سنی وقف بورڈ کو مسجد بنانے کے لئے ایودھیا کے خاص مقام پر 5 ایکڑ زمین دینے کا حکومت کو حکم دیا۔
Published: 10 Nov 2019, 8:11 PM IST
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ امن برقرار رکھنے کے لئے برطانوی حکومت نے مسجد کے احاطہ کو اندرونی اور بیرونی برآمدہ میں تقسیم کر کے 6 سے 7 فٹ اونچی دیوار کھڑی کروا دی تھی۔ اندرونی برآمدے کا استعمال مسلمان نماز پڑھنے کے لئے اور بیرونی برآمدے کا استعمال ہندو پوجا کے لئے کرنے لگے۔
Published: 10 Nov 2019, 8:11 PM IST
ایودھیا میں 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کو منہدم کر دیا گیا اور اسی کے ساتھ ملک بھر میں فساد بھڑک اٹھے ۔ اس کے بعد تمام مقدمات ہائی کورٹ کو سونپ دیئے گئے۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے 30 نومبر 2010 کو فیصلہ میں 2.77 ایکڑ متنازع زمین کو تینوں فریقین سنی وقف بورڈ، نرموہی اکھاڑا اور رام للا میں تقسیم کرنے کا حکم دیا ، جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔
Published: 10 Nov 2019, 8:11 PM IST
بابری مسجد کے انہدم سے قبل بی جے پی کے سابق سربراہ لال کرشن اڈوانی نے رام مندر کے لئے رتھ یاترا نکالی ۔ اڈوانی کی تحریک سے بی جے پی ایک قومی پارٹی میں تبدیل ہو گئی ۔ واضح رہے کہ 1984 کے عام انتخابات میں بی جے پی نے محض 2 سیٹیں جیتی تھیں جبکہ 1991 میں ہونے والے عام انتخابات میں اسے 125 سیٹیں حاصل ہوئیں۔
فیصلہ آنے کے بعد ملک کے زیادہ لوگوں نے راحت کی سانس لی ہے اور عدالت کے فیصلہ کا خیر مقدم کیا ہے ۔ تاہم مسلم فریقین نے اس بات پر اعتراض ظاہر کیا ہے کہ تمام ثبوت مسجد کے حق میں ہونے کے باوجود زمین مندر کو دے دی گئی۔
Published: 10 Nov 2019, 8:11 PM IST
ویسے اس فیصلہ پر جن لوگوں کو تحفظات ہیں ان میں صرف مسلمان ہی شامل نہیں ہیں بلکہ غیر مسلم دانشوروں نے بھی اس پر سوال اٹھائے ہیں۔ سبکدوش جج جسٹس گنگولی نے تو یہاں تک کہا ہے کہ سپریم کورٹ کو مسلمانوں کی مذہبی آزادی کی پاسداری کرنی چاہیے تھی اور اگر اسی طرح فیصلے کیے جانے لگے تو ملک میں نہ جانے کتنے مندر ،مسجد اور چرچ ہیں جنہیں توڑنا پڑ جائے گا۔
Published: 10 Nov 2019, 8:11 PM IST
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور قانون کی حکمرانی کے تحت فیصلہ کو ہر فریق کو منظور کرنا ہی ہوگا۔ اس فیصلہ پر نظر ثانی کی عرضی داخل کرنے کا حق فریقین کے پاس موجود ہے اور آنے والا وقت بتائے گا کہ عرضی داخل کی جاتی ہے یا نہیں۔
Published: 10 Nov 2019, 8:11 PM IST
قابل ذکر ہے کہ سال 1992 میں اکثرتی طبقہ نے اپنی طاقت کے زعم میں پہلے مسجد کو منہدم کیا اور پھر مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا ، اس کے برعکس مسلمانوں نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔ مسلمانوں نے سپریم کورٹ کا فیصلہ اپنی امیدوں کے خلاف ہونے کے باوجود اس کا احترام کیا اور اگر کسی کو مایوسی بھی ہوئی تو اس نے کوئی ایسی حرکت نہیں کی جس سے امن و امان کی صورت حال خراب ہو جائے
Published: 10 Nov 2019, 8:11 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 10 Nov 2019, 8:11 PM IST
تصویر: پریس ریلیز