نئی دہلی: ایودھیا کے بابری مسجد رام مندر ملکیت اراضی کے تنازعہ معاملہ میں ہندو اور مسلم فریقین نے ہفتہ کے روز سپریم کورٹ میں ’مولڈنگ آف ریلیف‘ کے تحت اپنا اپنا حلف نامہ دائر کر دیا۔ فریقین نے حلف نامہ دائر کر کے عدالت عظمیٰ کو اس امر سے آگاہ کرایا کہ انہیں مقدمہ گنوانے کی صورت میں کیا راحت دی جا سکتی ہے۔ واضح رہے کہ عدالت عظمی نے بدھ کے روز اس معاملہ میں 40 دنوں کی طویل سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ رکھا تھا۔
Published: 20 Oct 2019, 8:25 AM IST
مولڈنگ آف ریلیف کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک یا دو جماعتوں کو ملکیت حاصل ہو جاتی ہے تو باقیہ فریقین کے لئے کیا متبادل راحت فراہم کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ فریقین یہ مشورہ بھی دے سکتے ہیں کہ ان کے جیتنے کی صورت میں ہارنے والے فریق کو کیا راحت دی جائے۔
Published: 20 Oct 2019, 8:25 AM IST
مسلم فریقین نے اس حوالہ سے مشترکہ طور پر دستاویزات کو سیل شدہ لفافوں میں پیش کیا ہے۔ بدھ کے روز ، سماعت کے آخری دن، مسلم فریقوں نے عدالت عظمیٰ کے سامنے واضح طور پر کہا تھا کہ وہ بابری مسجد کی بحالی چاہتے ہیں کیونکہ یہ انہدام سے قبل ہی وہاں موجود تھی۔ مسلم فریق نے مولڈنگ آف ریلیف کے تحت سپریم کورٹ سے کیا کہا اس کا انکشاف نہیں ہو پایا ہے۔
Published: 20 Oct 2019, 8:25 AM IST
ادھر ہندو فریقین میں سے نرموہی اکھاڑہ نے بھی مہر بند لفافے میں عدالت کو اپنی رائے پیش کی ہے، تاہم کچھ ہندو فریقین نے عدالت میں پیش کی گئی اپنی رائے کو عام کر دیا ہے۔ رام لالہ براجمان کی جانب سے کہا ہے کہ یہ سب کے مفاد میں ہوگا کہ ہندوؤں کو اس متنازعہ مقام کا قبضہ دیا جائے اور پوری زمین رام لالہ کے حوالے کردی جائے۔ انہوں نے کہا ہے کہ مسلمان اور سنی سنٹرل وقف بورڈ متنازعہ اراضی کا دعوی نہیں کر سکتے ۔ اس فریق نے نرموہی اکھاڑہ کے دعوے پر بھی سوال اٹھائے ہیں۔ اس پارٹی نے کہا ہے کہ عدالت ہندوؤں کی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ سنائے۔
Published: 20 Oct 2019, 8:25 AM IST
اس کے علاوہ ، شری رام جنم بھومی پرندھار کمیٹی نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ اراضی کا فیصلہ رام لالہ براجمان کے حق میں ہونا چاہئے۔ کمیٹی نے مجوزہ رام مندر کے انتظام کے لئے لائحہ عمل طے کرنے کی بھی اپیل کی ہے۔ اس کے علاوہ اس نے مطالبہ کیا ہے کہ مرکزی حکومت کو ایک ٹرسٹ قائم کرنا چاہئے جس کے ممبران وہ تمام افراد رہیں جنہوں نے زمین پر اپنا دعوی پیش کیا ہے اس کے علاوہ، آل انڈیا ہندو مہاسبھا کا کہنا ہے کہ چونکہ مسلم فریق نے استدلال کیا ہے کہ بھگوان رام کی جائے پیدائش معلوم نہیں ہے، لہذا پورے ایودھیا کو ایک مقدس شہر قرار دیا جانا چاہئے۔
Published: 20 Oct 2019, 8:25 AM IST
وہیں گوپال داس وشاراد، جنہوں نے یہ مقدمہ 16 جنوری 1950 کو درج کیا تھا، نے مطالبہ کیا کہ اس معاملے میں کسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اس مقدمہ میں مسلمانوں کا کوئی حق نہیں ہے، لہذا کسی بھی زمین پر قبضہ کرنے والے کو اس کی ملکیت نہیں دی جانی چاہئے۔
ان تمام آراء کے منظر عام پر آنے کے بعد یہ محسوس ہوتا ہے کہ کہ ہندو فریق نہیں چاہتے کہ ایودھیا کی متنازعہ اراضی کو ہندوؤں اور مسلمانوں میں تقسیم کیا جائے۔
Published: 20 Oct 2019, 8:25 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 20 Oct 2019, 8:25 AM IST
تصویر: پریس ریلیز