بابری مسجد - رام جنم بھومی مقدمہ میں ثالثی کے دوسرے دور نے 70 سالہ قدیمی اس تنازعہ کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے جس کے بعد اس معاملے میں اہم فریقین نے مفاہمت کے بجائے عدالتی فیصلے پر زور دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ثالثی کمیٹی اس معاملہ کو اس وقت تک حل نہیں کر سکتی جب تک تمام فریقوں میں اتفاق رائے نہیں ہوتی۔
Published: 22 Oct 2019, 3:56 PM IST
سپریم کورٹ نے ثالثی کے دوسرے دور کا اعلان تو کردیا لیکن تا حال اس کا کو ئی وقت مقرر نہیں کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ وقت کے حوالے سے لوگوں میں تجسس پایا جاتا ہے۔ کیونکہ 18 اکتوبر کو عدالت عظمیٰ نے سماعت مکمل کرنے کے لئے ڈیڈ لائن متعین کرنے کے بعد اس کی تجویز پیش کی تھی۔
Published: 22 Oct 2019, 3:56 PM IST
ثالثی کی اس تجویز کے بعد مسلم فریقین کے حوالہ سے کئی طرح کی خبریں منظر عام پر آئیں، مثال کے طور پر میڈیا کے ایک گروپ نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ سنی وقف بورڈ مسجد سے دستبردار ہو رہا ہے، تاہم بعد میں بورڈ کے ارکان اور وکلا نے اس خبر کو بے بنیاد قرار دیا۔ بعد میں یہ کہا گیا کہ سنی وقف بورڈ کے چیئرمین ظفر احمد فاروقی دراصل دستببردار ہونا چاہتے ہیں اور انہوں نے اس ضمن میں سپریم کورٹ میں حلف نامہ بھی پیش کر دیا ہے۔ ادھر سنی وقف بورڈ کے وکیل نے عدالت میں مقدمہ کی سماعت مکمل کرنے کو ترجیح دی ہے۔
Published: 22 Oct 2019, 3:56 PM IST
ادھر ہندو پارٹیاں پہلے ہی سے متنازعہ مقام کو رام کی جائے پیدائش قرار دے کر رام مندر تعمیر کا عزم کر رہی ہیں۔ یہ بات اور ہے کہ ہندو پارٹیوں میں خود بھی اتحاد نہیں ہے کیونکہ ایک دوسری ہندو پارٹی ’نرموہی اکھاڑہ‘ اس مقام کو ’سیتا رسوئی‘ قرار دیتی ہے۔ تاہم تمام ہندو پارٹیاں مسجد کی پر زور مخالفت کرتی ہیں۔ ان تمام حقائق کی بنیاد پر یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ ہندو پارٹیوں نے بابری مسجد معاملہ میں ثالثی کے دوسرے مرحلے کے دوران علیحدگی اختیار کرلی ہے۔ ہندو پارٹیوں کا کہنا ہے کہ اب مفاہمت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ہے۔
Published: 22 Oct 2019, 3:56 PM IST
ہندو فریق کے ایک ذریعہ نے کہا، ’’ہم دیکھ سکتے ہیں کہ وقف بورڈ کی رائے میں اختلاف ہے اور ثالثی کی حمایت کرنے والے دھڑے کو کئی سالوں سے اس معاملے میں شامل اہم مسلم جماعتوں کی حمایت حاصل نہیں ہو رہی ہے۔ ہمارا موقف ہے کہ اب ثالثی کی کسی بھی کوشش کے بعد مفاہمت کے بجائے مزید پیچیدگیاں ہی پیدا ہوں گی۔ رام للّا کے وکیلوں نے عدالت عظمیٰ کو صاف طور پر بتا دیا ہے کہ انہیں ثالثی میں حصہ لینے میں دلچسپی نہیں ہیں۔
Published: 22 Oct 2019, 3:56 PM IST
واضح رہے کہ 2010 میں الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ میں رام للّا، نرموہی اکھاڑہ اور وقف بورڈ کے درمیان 2.77 ایکڑ متنازعہ اراضی کو برابر حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ادھر رام للّا اور نرموہی اکھاڑہ کے مابین ٹکراؤ ہمیشہ سے برقرار رہا ہے کیوں کہ ان میں سے کوئی بھی فریق متنازعہ مقام پر اپنے دعوے پر کوئی سمجھوتہ نہیں چاہتا۔
Published: 22 Oct 2019, 3:56 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 22 Oct 2019, 3:56 PM IST