نئی دہلی: بابری مسجد ملکیت مقدمہ میں آج سماعت دسویں دن میں داخل ہوئی جس کے دوران سوٹ نمبر1 کی نمائندگی کرتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ رنجیت کمار نے کل کی اپنی نا مکمل بحث کا آغاز کرتے ہوئے عدالت میں 1950 میں 20 مسلمانوں کی جانب سے داخل کردہ حلف نامہ جس میں انہوں نے بابری مسجد ہندوؤں کے حوالہ کرنے کی حامی بھری تھی پڑھ کرسنانے لگے جس پر آئینی بنچ نے اعتراض کیا اور کہا کہ ان سب باتوں کو الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلہ میں لے لیا تھا لہذا وہ عدالت میں وہ ثبوت پیش کریں جس پر اب تک بحث نہیں ہوسکی ہے۔
Published: undefined
رنجیت کمار نے کہا کہ الہ آباد ہائی کورٹ نے حلف نامہ اس لئے قبول نہیں کیا تھا کیونکہ حلف نامہ دینے والے افراد گواہی کے لئے عدالت میں پیش نہیں ہوسکے تھے جس پر جسٹس چندر چوڑ نے کہا کہ قانون کا یہی تقاضہ ہے کہ بیان دینے والے شخص کو عدالت میں حاضر ہو کر گواہی دینی ضروری ہے۔ اسی درمیان جسٹس بوبڑے نے کہا کہ یہ حلف نامے کوئی قانونی حیثیت نہیں رکھتے کیونکہ مجسٹریٹ کورٹ اور الہ آباد ہائی کور ٹ نے اسے قبول ہی نہیں کیا ہے لہذا آج اس پر بحث کرنے کی گنجائش نہیں ہے لیکن اگر یہی حلف نامے الہ آباد ہائی کورٹ میں داخل کئے جاتے تو ہم اس پر غور کرسکتے تھے لیکن یہ حلف نامہ مجسٹریٹ کورٹ میں داخل کئے گئے تھے جس کی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
Published: undefined
اس معاملہ کی سماعت کرنے والی پانچ رکنی آئینی بنچ جس میں چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی، جسٹس اے ایس بوبڑے، جسٹس اشوک بھوشن، جسٹس چندر چوڑ اور جسٹس عبدالنظیر شامل ہیں کو ایڈوکیٹ رنجیت کمار نے ایک دستاویز پڑھ کر سنایا جس کے مطابق ایودھیا کے تھانے دار نے فقیر نشانت نامی ایک شخص کے خلاف شکایت درج کی تھی کہ وہ وہ مسجد جنم استھان میں رہ رہا تھا لیکن جب اسے سمجھایا گیا کہ کوئی بھی شخص یہاں جا نہیں سکتا پھر بھی وہ بضد تھا کہ یہ جگہ نرنکار کی ہے۔
Published: undefined
اسی درمیان ایڈوکیٹ رنجیت کمار کی بحث کا اختتام ہوا جس کے بعد رام للا کے وکیل کے پراسرن جو سوٹ نمبر 5 کی نمائندگی کر رہے ہیں نے دوبارہ بحث کا آغاز کیا۔ ایڈوکیٹ پراسرن نے چند فیصلوں کی خواندگی کے بعد اپنی بحث مکمل ہونے کا اعلان کیا جس کے بعد عدالت نے جمعیۃ علماء ہند کے وکیل ڈاکٹر راجیو دھون سے کہا کہ وہ اپنی بحث شروع کریں جس پر انہوں نے کہا کہ عدالت کو پہلے رام جنم بھومی کی حمایت کرنے والے وکلاء کے دلائل کی مکمل سماعت کرلینی چاہیے اس کے بعد ہی وہ اپنی بحث کا آغاز کریں گے، ڈاکٹر راجیو دھون جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل سوٹ نمبر 4 میں اپنی بحث کریں گے۔
Published: undefined
اسی درمیان ایڈوکیٹ وی این سنہا نے عدالت سے مزید بحث کرنے کی اجازت طلب کی جو نرموہی اکھاڑہ کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے ان کی درخواست کو منظور کرلیا اور پھر وی این سنہا نے بحث کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ تنازعہ ہونے کے بعد متنازعہ مقام برٹش حکومت کے قبضہ میں چلی گئی تھی جس پر برٹش حکومت کا قبضہ برقرار رہا، لیکن ایودھیا کولے کر ہندؤں کی آستھا کم نہیں ہوئی۔
Published: undefined
یڈوکیٹ وی این سنہا کی مختصر بحث کے بعد سینئر ایڈوکیٹ ششیل کمار جین (نرموہی اکھاڑہ) نے بحث کا آغاز کیا کیونکہ شروعات میں ان کی بحث نامکمل تھی نے عدالت کو بتایا کہ امیش چندرا پانڈے (ہندو گواہ) نے اعتراف کیا ہے کہ متنازعہ مقام پر ہندوؤں کا قبضہ تھا اور مورتی اندر کے احاطہ میں ہی رکھی گئی تھی جسے کبھی باہر نہیں نکالا گیا جس کا ذکر گوپال سنگھ وشراد کے فیصلہ میں درج ہے، ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا کہ رام للا کے سوٹ نمبر5 جو مدعی نمبر3 ہیں وہ رام للا کی عبادت نہیں کرتا وہ کسی اور جماعت سے تعلق رکھتا ہے جس کانام شری دیوکی نند اگروال ہے۔
Published: undefined
جسٹس بوبڑے نے ششیل کمار جین سے دریافت کیا کہ آیا وہ کس جگہ پر دعو ی کر رہے تو انہوں نے کہا کہ وہ اندورنی اور باہری احاطہ دونوں پر اپنا دعوی پیش کر رہے ہیں کیونکہ یہ ان کی ملکیت ہے۔ چیف جسٹس نے شیشل کمار جین سے سوال پوچھا کہ آیا وہ حق ملکیت پر دعو ی کر رہے ہیں اور کیا انہوں نے ہائی کورٹ میں متضاد دعوی پیش کیا تھا؟ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت اس ضمن میں کل سماعت کریگی اور اپنی سماعت کل تک کے لیئے ملتوی کردی۔
Published: undefined
آج کی عدالتی پیش رفت پر صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سد ارشد نی نے کہا کہ راجیو دھون کا یہ فیصلہ کہ وہ آخر میں اپنی بحث کریں گے اطمینان بخش ہے کیونکہ اگر مسلم فریقین بشمول سنی سینٹرل وقف بورڈ کے وکلاء کی بحث میں میں کوئی بات رہ جائے گی تو ڈاکٹر راجیو دھون اس کا جواب دے دیں گے کیونکہ وہ خود چاہتے ہیں کہ تمام بحث کا نچوڑ عدالت میں پیش کریں۔
Published: undefined
واضح رہے کہ بابری مسجدملکیت مقدمہ معاملہ پر صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا سید ارشدمدنی، ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجازمقبول اور دیگر سینئر وکلاء اور قانونی کمیٹی سے برابر رابطہ میں ہیں اور روزانہ کی تفصیلات معلوم کرنے اور آپسی صلاح ومشورہ کے بعد آگے کالائحہ عمل تیار کرتے ہیں، جمعیۃعلماء ہند کا پہلے دن سے یہ ماننا ہے کہ یہ ملکیت کامعاملہ ہے آستھا کا نہیں اسی لئے جمعیۃعلماء ہند نے 1950 فیض آباد ڈسٹرکٹ کورٹ میں دعویٰ داخل کیا تھا۔ بابری مسجد کی ملکیت کے تنازعہ کو لیکر سپریم کورٹ آف انڈیا میں زیر سماعت لیڈمیٹرسول پٹیشن نمبر10866-10867/2010 پر بحث کے دوران جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر وکیل ڈاکٹر راجیودھون کی معاونت کے لئے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ کنورادتیہ سنگھ، ایڈوکیٹ تانیا شری، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے، ایڈوکیٹ قراۃ العین، ایڈوکیٹ سدھی پاڈیا و دیگر موجود تھے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined