آیوشمان بھارت منصوبہ جب لانچ کیا گیا تو بی جے پی نے اس کا امریکہ کی ’اوباما کیئر‘ کی طرز پر ’مودی کیئر‘ کہہ کر پرچار کیا۔ دراصل یہ منصوبہ شروع کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے خود کہا تھا، ’’ملک کے 50 کروڑ سے زیادہ بھائی بہنوں کو 5 لاکھ تک کا ہیلتھ انشیورنس دینے والی یہ دنیا کی سب سے بڑی اسکیم ہے۔ اس اسکیم کے مستفیضین کی تعداد یورپین یونین کی کل آبادی کے برابر ہے۔‘‘ سننے میں یہ سب بہت اچھا لگتا ہے لیکن اس منصوبہ میں نجی کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے جس طرح ہیر پھیر کی گئی اس سے اس کا مقصد ہی فوت ہو گیا۔
ذرائع کے مطابق نجی کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے کا منصوبہ اس اسکیم کی لانچنگ سے پہلے ہی بنا لیا گیا تھا۔ منصوبہ کے اعلان سے پہلے پی 7 مئی 2018 کو ایم او میں اسے حتمی شکل دینے کے لئے ایک میٹنگ بلائی گئی تھی۔ میٹنگ میں وزیر اعظم کے علاوہ ان کے پرنسپل سکریٹری نرپیندر مشرا، نیتی آیوگ کے سی ای او امیتابھ کانت، مرکزی حکومت کی طبی خدمات کی سکریٹری پریتی سودان، آیوشمان بھارت کے سی ای او اندو بھوشن اور ڈپٹی سی ای او دنیش ارورا شامل تھے۔ نام شائع نہ کرنے کی شرط پر ذرائع نے نوجیون اور قومی آواز کے نمائندہ کو بتایا کہ میٹنگ کے دوران حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا، معلومات کو چھپایا گیا اور سرکاری ہیلتھ انشیورنس کی منفی شبیہ پیش کی گئی، تاکہ اس وسیع تر منصوبہ میں نجی کمپنیوں کی شراک داری کو یقینی بنایا جا سکے۔
مثلال کے طور پر ڈپٹی سی ای او دنیش ارورا نے اتراکھنڈ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سرکاری علاقہ کی بیمہ کمپنی نے وہاں لاگو سی ایم انشیورنس اسکیم کے لئے 1197 روپے سالانکہ پریمیم کی کوٹیشن دی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بولی میں شامل سرکاری علاقہ کی کمپنی نیشنل انشیورنس نے محض 377 روپے کے پریمیم کی کوٹیشن پیش کی تھی۔ اسی طرح مہاراشٹر کے حوالہ سے ارورا نے بتایا کہ وہاں سرکاری علاقہ کی کمپنی نے پریمیم کی لاگت 760 سے بڑھا کر 1570 کر دی ہے، جبکہ یہ جزوی سچائی ہے کیونکہ ہیتھ پیکج میں کئی اور سہولیات جوڑنے کی عوض میں پریمیم میں اضافہ کیا گیا ہے۔ لیکن میٹنگ کے دوران سہولیات کی بات ارورا نے پوشیدہ رکھی۔
اتنا ہی نہیں ارورا نے ریاستی حکومتوں پر ٹرسٹ ماڈل کے ذریعے منصوبہ کی عملاوری کرنے اور ٹی پی اے کی تقرری کا بھی دباؤ بنایا، حالانکہ اس کا سیدھا تعلق نجی کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے سے نہیں ہے لیکن اس کا اختتام پر بدعنوانی پر ہی ہوا کیوں کہ ریاستی حکومتوں نے ٹی پی اے کا زیادہ تر کام بی جے پی حکومت کے قریبی لوگوں کو دے دیا۔ ماہرین کے مطابق سرکاری علاقہ کی انشیورنس کمپنیاں پوری طرح سے جانچ پڑتال کے بعد ہی بیمہ دعوں کی ادائیگی کرتی ہیں، جبکہ ٹرسٹ ماڈل کے تحت ایسا ممکن نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ عموماً ریاستی حکومتوں کے پاس ایسا کوئی نظام نہیں ہے جس سے وہ ہر دعوے کی جانچ کر سکیں۔ یہ پایا گیا کہ ٹرسٹ ماڈل کے تحت فرضی کلیم بڑی تعداد میں کئے جاتے ہیں اور ان کی بھی ادائیگی کروا لی جاتی ہے۔
Published: 10 Jan 2019, 10:09 PM IST
ٹرسٹ ماڈل کے تحت حکومتیں ایک ٹرسٹ تشکیل دیتی ہیں اور بیمہ کے لئے بجٹ الاٹ کرتی ہیں۔ انشیورنس کے برخلاف ریاستی حکومتیں خود انشیورنس کمپنی کا کردار ادا کرتی ہیں۔ عملی طور پر اکثر یہ پایا گیا ہے کہ بغیر کسی جانچ پڑتال کے منمانے طریقہ سے ٹرسٹ ماڈل کے تحت کلیم کی ادائیگی کی جاتی ہے۔
آیوشمان بھارت کے حوالہ سے 7 مئی 2018 کو منعقدہ میٹنگ اس لئے بھی ہم تھی کہ اس میں ہی سب کچھ طے کیا جانا تھا اور ہوا بھی یہی۔ پی ایم او کی ہدایت پر تشکیل دی گئی چار سینئر مرکزی وزرا پر مشتمل کمیٹی کی سفارشات کو بھی اس میٹنگ میں درکنار کر دیا گیا۔ نتن گڈکری کی قیادت والی اس کمیٹی میں جے پی نڈا، پیوش گوئل اور رادھا موہن شامل تھے۔ ویسے اس کمیٹی نے بھی طے کیا تھا کہ پہلی ترجیح ٹرسٹ ماڈل کو دی جائے گی۔ لیکن دوسری ترجیح سرکاری علاقہ کی کمپنیوں کو دینے اور آخری ترجیح اوپن ٹینڈرنگ کو دینے کی بات کہی گئی۔ اوپن ٹینڈرنگ کے تحت نجی علاقہ کی کمپنیاں بھی اس منصوبہ میں شامل ہو سکتی تھیں۔ لیکن حکومت نے جان بوجھ کر دوسری ترجیح کو چھپا لیا۔ نتیجتاً نجی کمپنیوں کو دراندازی کرنے کا پورا موقع فراہم ہو گیا۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ اصولوں کے مطابق مرکزی وزرا کی کمیٹی کی سفارشات کو عوامی کیا جانا چاہئے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔
یہ سب کچھ کیوں کیا گیا، اس سوال کا جواب ڈھونڈھنے کے دوران منظر عام پر آئی ایک حقیقت اہم ہے۔ مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد جرمن کنسلٹنسی فرم ’جی آئی زیڈ‘ پر پالیسی ساز معاملات میں مداخلت کرنے اور فیصلوں کو متاثر کرنے کا الزام ہے۔ غورطلب ہے کہ سابقہ منموہن حکومت نے اس فرم کی انہیں حرکتوں کی وجہ سے اس کو باہر کا راستہ دکھا دیا تھا۔ لیکن مودی حکومت کے دوران اس کو دوبارہ سے اہمیت حاصل ہو گئی۔ جی آئی زیڈ کے ملازمین ہر ریاست میں مقرر کئے گئے ہیں، جو اسپتالوں کے ساتھ پیسے کے لین دین کی ذمہ داری نبھاتے ہیں۔
Published: 10 Jan 2019, 10:09 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 10 Jan 2019, 10:09 PM IST
تصویر: پریس ریلیز