پٹنہ: اورنگ آباد میں فساد برپا ہونے کے بعد وہاں حالات دھیرے دھیرے قابو میں آ رہے ہیں لیکن اس فرقہ وارانہ تشدد نے کئی مسلمانوں کو پوری طرح برباد کر دیا۔ ان میں سے ہی ایک ہیں امروز خان جو نواڈیہہ میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کا شکار ہوئے۔ نواڈیہہ میں جن دکانوں کو نذر آتش کیا گیا ان میں سے ایک دکان امروز خان کی بھی تھی جو چپل جوتے کا شو روم چلاتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ نواڈیہہ بازار میں مسلمانوں کی دکانوں کو منصوبہ بند طریقے سے لوٹا گیا اور پھر اسے آگ کے حوالے کر دیا گیا۔
امروز خان کا ’ایکشن شو روم‘ صدر بازار میں پنجاب نیشنل بینک اور آئی ڈی بی آئی بینک کے بغل میں تھا جس کو فسادیوں نے جلا کر راکھ کر دیا۔ اس شو روم کا جلنا صرف ایک دکان کا جلنا نہیں تھا بلکہ اس کے ساتھ لاکھوں کا مال جل گیا اور ایک فیملی کی ساری امیدیں خاکستر ہو گئیں۔ اس حادثہ کا امروز خان کو اتنا صدمہ پہنچا ہے کہ وہ شہر ہی نہیں ملک چھوڑ کر کہیں باہر چلے جانا چاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’میں نے فیصلہ کر لیا ہے، اب یہاں نہیں رہنا ہے۔ ہم نے یہاں بھائی چارہ بنائے رکھنے کے لیے سب کچھ کیا، ہولی اور دیوالی بھی منائی اور مندروں کو چندا بھی دیا لیکن کچھ کام نہ آیا۔ آج ہم پوری طرح برباد ہو چکے ہیں۔‘‘
گنگا-جمنی تہذیب کو بچانے کی کوشش کرنے والے امروز خان کی فیملی اس وقت صرف صدمے میں نہیں ہے بلکہ دہشت زدہ بھی ہے۔ علاقے میں فرقہ وارانہ تشدد سے متعلق وہ کہتے ہیں کہ ’’فساد بھڑکنے سے پہلے ہی مجھے اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا کہ میرے شو روم کو نشانہ بنایا جائے گا۔ اس لیے میں نے علاقے کے ہندو بھائیوں سے اپیل کی کہ وہ میری دکان کو بچا لیں۔ ہندو بھائیوں نے بھروسہ بھی دلایا تھا کہ کچھ نہیں ہوگا، لیکن ساری کوششیں ناکام ہوئیں۔ سب کچھ تباہ و برباد ہو گیا۔‘‘ امروز خان نے دکان کو بچانے کے لیے پولس سے بھی لگاتار رابطہ میں رہنے کی بات کہی۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’’میں اپنے شو روم کو بچانے کے لیے پولس سے بھی اپیل کی۔ ڈی ایم صاحب نے بھی کہا تھا کہ ہم لوگ ہیں، گھبرائیے نہیں... کچھ نہیں ہوگا۔ لیکن جب 10 سے 15 ہزار لوگوں پر مبنی ’شوبھا یاترا‘ اِدھر سے گزری تو اپنے ساتھ تباہی بھی ساتھ لائی۔ جلوس میں شرپسندی کا یہ عالم تھا کہ ایسا لگ رہا تھا جیسے انھیں انتظامیہ کی طرف سے پوری چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ انھوں نے پوری تیاری کے ساتھ جلوس نکالاتھا۔ لوگوں کے ہاتھوں میں پٹرول کی بوتلیں بھی تھیں۔‘‘ امروز خان مزید کہتے ہیں کہ جب شو روم جلایا جا رہا تھا تو پولس سے وہ لگاتار اپیل کر رہے تھے،وہ روتے رہے، بیوی اور بچے گڑگڑاتے رہے کہ دکان کو بچا لو لیکن پولس نے نظر انداز کر دیا۔ آخر کار دکان کو پوری طرح سے جلا دیا گیا۔
دکان کے جلنے سے ہوئے نقصان کے بارے میں نم آنکھوں سے امروز خان بتاتے ہیں کہ ’’آگ اتنی زبردست لگائی گئی تھی کہ دو منزلہ شو روم کی چھت اور دیواریں بھی پھٹ گئیں۔ 20 سے 25 لاکھ روپے کا شو روم تقریباً 35 لاکھ روپے کے مال کے ساتھ آگ کی نذر ہو گیا۔‘‘فساد برپا ہونے کے بعد پولس کے ذریعہ کی گئی کارروائی کے بارے میں امروز کہتے ہیں کہ ’’فساد کے بعد پٹنہ سے پولس اور انتظامیہ کے بڑے افسران پہنچے۔ سب نے اچھا کام کیا۔ امن بحال ہو گیا، لیکن صاحب! ہم تو لٹ گئے، برباد ہو گئے۔ انتظامیہ نے اپنا کام کرنے میں بہت تاخیر کر دی۔‘‘
امروز خان کا ’ایکشن شو روم‘ صرف ان کی فیملی کے رزق کا سامان مہیا نہیں کرتا تھا بلکہ اس سے کئی گھروں کا چولہا جلتا تھا۔ اس سلسلے میں امروز کا کہنا ہے کہ ’’ان کی دکان میں کام کرنے والے 22 اسٹاف میں سے 18 ہندو ہیں۔ آج سبھی صدمے میں ہیں۔ وہ اپنا گھر چلانے کے لیے پریشان ہیں۔‘‘ شو روم کے جل جانے کے بعد امروز اپنے ملازموں کو پریشان دیکھ کر بھی غمگین ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’’میں نے سب کو کہہ دیا ہے کہ بھلے ہی مجھے بھیک مانگنی پڑے لیکن میں آپ لوگوں کی فیملی کا خرچ اٹھاتا رہوں گا۔‘‘
فساد کے وقت پولس کی وہاں پر موجودگی تھی یا نہیں، اس سلسلے میں امروز خان نے ’قومی آواز‘ کو بتایا کہ ’’جس وقت نواڈیہہ میں ہنگامہ ہو رہا تھا، اس کے چار پانچ گھنٹے تک سڑکوں پر پولس اور انتظامیہ کا کوئی پتہ نہیں تھا۔ کچھ پولس اہلکار تھے بھی تو لوگ ان سے ڈر نہیں رہے تھے۔‘‘ امروز اس فساد کو ہندو-مسلم فساد ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ان کے بھائی کے کپڑے کے شو روم کو ہندو بھائیوں نے بچایا۔ ایسے ہی اور بھی مسلمانوں کی کئی دکانوں کو ہندوؤں نے بچایا۔ پھر ہم یہ کیسے مان لیں کہ یہ فساد ہندو-مسلمانوں کا تھا۔ یہ فساد تو اپنے فائدے کے لیے کروایا گیا تھا۔ جو شخص دکانوں کو لوٹ رہے تھے، وہ اس کا مزہ لے رہے تھے۔‘‘
جب امروز خان سے ملک چھوڑ کر جانے سے متعلق سوال کیا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ’’یہاں ہماری سیکورٹی کی ذمہ داری کون لے گا؟ میں نے تو سیکورٹی کی اپیل پولس انتظامیہ سے کی تھی، اس وقت ڈی ایم صاحب نے کہا تھا کہ ہم لوگ ہیں، کچھ نہیں ہوگا... میں نے لوگوں کے یقین اور بھروسے پر اپنی زندگی بھر کی کمائی یہاں لگا دی، لیکن ہمارے ساتھ دھوکہ ہوا۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’اب ہم یہاں نہیں رہیں گے۔ ایسی جگہ جائیں گے جہاں بھائی چارہ ہوگا، سیکولرزم ہوگا، لوگ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہوں گے۔ اب ہم ملک چھوڑ کر ہانگ کانگ چلے جائیں گے۔‘‘
امروز خان بتاتے ہیں کہ وہ 18 سال تک بیرون ملک رہ چکے ہیں اور ملک واپسی کا ارادہ اس لیے کیا تھا تاکہ خود بھی اپنے ملک کی مٹی کے قریب رہ سکیں اور بچے بھی مادرِ وطن سے محبت کر سکیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’18 سال بیرون ملک میں رہا اور پچھلے کچھ سال سے اپنے شہر میں آ کر کام کر رہا ہوں۔ میں نے تو سوچا تھا کہ اپنے ملک میں آ کر کام کریں گے تو میرا پیسہ ملک کے کام آئے گا۔ ہمارے بچے ملک میں رہیں گے تو ان کے اندر ملک سےمحبت پیدا ہوگی لیکن اب یہاں رہنا مناسب نہیں ہے۔‘‘ اپنے بچوں کے لیے فکرمند امروز خان بتاتے ہیں کہ ’’میری ایک بیٹی بیرون ملک میں پڑھتی ہے جس کی پڑھائی کا خرچ ساڑھے تین لاکھ روپیہ ماہانہ ہے۔ اب وہ یہ پیسہ دینے کے قابل نہیں ہیں اس لیے اپنی بیٹی کو بھی واپس بلا لیا ہے۔ اب فکر اس بات کی ہے کہ اپنے بچوں کی پرورش کس طرح کروں۔‘‘
Published: 02 Apr 2018, 12:28 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 02 Apr 2018, 12:28 PM IST