سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کا جسد خاکی پورے اعزاز کے ساتھ دہلی کے راج گھاٹ کے نزدیک اسمرتی استھل پر سپرد خاک ہو گیا۔ اس موقع پر واجپئی کو آخری وداعی دینے کے لیے پارٹی لائن اور نظریات سے اوپر اٹھ کر سبھی پارٹیوں کے لیڈران پہنچے۔ واجپئی بی جے پی لیڈر تھے، لیکن ان کے دوست اور خیر خواہ سبھی پارٹیوں میں تھے۔ دراصل واجپئی اس سیاسی روایت سے آتے تھے جس میں اپنے سخت سیاسی مخالفین کے لیے بھی عزت اور انسانی اقدار کا ایک اہم مقام تھا۔
سیاسی مخالفین کے تئیں بھی عزت اور قدر رکھنے کی اس روایت میں ایک بڑٓ نام سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کا رہا ہے۔ اسی روایت کے سبب اکثر مخالف ہونے کے باوجود واجپئی اور سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کے درمیان بہت ہی گہرا رشتہ رہا۔ دونوں کے درمیان رشتے اتنے خوشگوار تھے کہ انتخابات کی مجبوری بھی ان دونوں کے درمیان کبھی نہیں آئی۔ اسی تعلق سے 1991 کا ایک واقعہ ہے جب واجپئی نے ودیشا سے لوک سبھا انتخاب لڑا اور جیتا بھی۔ لیکن ان کی فتح میں ان کی مخالف پارٹی کے صدر راجیو گاندھی کا بھی اہم کردار تھا۔ اس انتخاب میں سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی نے واجپئی کے لیے وہ کیا جو آج کوئی بھی تصور نہیں کر سکتا۔
دراصل اس انتخاب میں ودیشا سے پرتاپ بھانو شرما کانگریس کے امیدوار تھے۔ پرتاپ بھانو شرما کے مطابق انتخابات سے کچھ دن پہلے ایک رات تقریباً ایک بجے ان کے پاس راجیو گاندھی کا فون آیا۔ کانگریس لیڈر پرتاپ بھانو شرما بتاتے ہیں کہ راجیو گاندھی کو پتہ چل گیا تھا کہ واجپئی ودیشا سے انتخاب لڑیں گے۔ فون پر راجیو گاندھی نے ان کو ودیشا کی جگہ بھوپال اور بیتول سے انتخاب لڑنے کا مشورہ دیا۔ حالانکہ بھانو نہیں مانے اور بولے کہ وہ ودیشا سے ہی تعلق رکھتے ہیں اس لیے وہیں سے انتخاب لڑیں گے۔ بھانو وہیں سے انتخاب لڑے اور ان کی شکست ہو گئی۔ لیکن اس قصے سے یہ صاف ہو گیا کہ سخت سیاسی مخالف ہونے کے باوجود راجیو گاندھی چاہتے تھے کہ واجپئی یہ انتخاب جیت کر لوک سبھا ضرور پہنچیں، اسی لیے انھوں نے اپنے امیدوار سے سیٹ بدلنے کو کہا تھا۔ ایسے لیڈر اور آپسی محبت کا ایسا رشتہ آج کہیں دیکھنے کو نہیں ملتا۔
ان دونوں سیاسی لیڈروں کے درمیان گہرے رشتوں کو بیان کرتا ایک اور واقعہ ہے۔ جب واجپئی گردے کے مرض میں مبتلا تھے اور علاج کے لیے امریکہ جانے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے، ایسے وقت میں راجیو گاندھی نے ہی انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انھیں امریکہ بھیجا تھا۔ یہ واقعہ 1987 کا ہے۔ جس مرض میں واجپئی مبتلا تھے اس کا علاج امریکہ میں ہی ممکن تھا لیکن معاشی مسائل کی وجہ سے وہ امریکہ نہیں جا پا رہے تھے۔ اس بات کا پتہ اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی کو چل گیا۔ ایک دن انھوں نے واجپئی کو اپنے دفتر میں بلایا اور ان سے کہا کہ وہ انھیں اقوام متحدہ میں نیو یارک جانے والے ہندوستانی نمائندہ وفد میں شامل کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی راجیو گاندھی نے ان سے کہا کہ امید ہے کہ وہ اس موقع کا فائدہ اٹھا کر وہاں اپنا علاج بھی کرا سکیں گے۔ اس کے بعد واجپئی نمائندہ وفد کے ساتھ امریکہ گئے اور وہاں پر اپنا علاج کرا کر واپس لوٹے۔
Published: undefined
اس واقعہ کا تذکرہ ایک سینئر صحافی نے اپنی حال ہی میں شائع ایک کتاب میں بھی کیا ہے۔ سینئر صحافی کے مطابق 1991 میں راجیو گاندھی کے قتل کے بعد اس وقت اپوزیشن کے لیڈر اٹل بہاری واجپئی نے ان کو یاد کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف پہلی بار سب کے سامنے کیا تھا۔ صحافی نے بتایا کہ راجیو گاندھی کے بارے میں پوچھے جانے پر واجپئی نے بڑے ہی جذباتی انداز میں کہا تھا کہ ”اگر میں زندہ ہوں تو صرف راجیو گاندھی کی وجہ سے۔“ حالانکہ اس واقعہ کا دونوں ہی لیڈروں نے کبھی کسی اور سے تذکرہ نہیں کیا۔
آج واجپئی کی آخری وداعی کے ساتھ ان سے جڑے ایسے تمام واقعے خود بہ خود لوگوں کو یاد آ رہے ہیں جب پارٹی پالیٹکس سے اوپر اٹھ کر انھوں نے اپنی اپوزیشن پارٹی لیڈروں کے دلوں میں جگہ بنائی تھی جو آج کے سیاسی لیڈروں کے درمیان دیکھنے کو نہیں ملتی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز