آسام میں دارانگ ضلعے کے سیپا جھاڑ علاقے میں سرکاری زمین پر سے مبینہ ناجائز قبضہ ہٹانے کے دوران جو درندگی ہوئی ہے اس سے پورا ملک لرز اٹھا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس وحشانیہ کارروائی کی شدید الفاظ میں مذمت ہو رہی ہے اور اس واقعہ کی اعلیٰ سطحی جانچ کے علاوہ خاطیوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ ہندوستان کی گودی میڈیا اس لرزہ خیز واقعہ پر مجرمانہ انداز میں خاموش ہے لیکن عالمی میڈیا سراپا احتجاج ہے۔ دنیا کے دیگر ملکوں کے اخبارات اور نیوز ایجنسیاں اس واقعہ کی مذمت کر رہی ہیں اور حکومت سے یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا ہندوستان جیسے ملک میں جو کہ ایک مہذب ملک ہونے کا دعویٰ کرتا ہے ایسی درندگی کی اجازت دی جا سکتی ہے۔
Published: undefined
جہاں ناجائز قبضہ ہٹانے کی مہم چلائی جا رہی تھی وہ بہت بڑا علاقہ ہے۔ وہاں بنگالی بولنے والے مسلمان کئی دہائیوں سے آباد ہیں اور وہاں ان کی نسلیں پروان چڑھی ہیں۔ وہیں وہ لوگ کھیتی باڑی کرتے اور پرامن انداز میں اپنی زندگی گزارتے رہے ہیں۔ بی جے پی کی نظر گزشتہ کئی سالوں سے اس علاقے پر لگی ہوئی تھی۔ پہلے ان مسلمانوں کو این آر سی کے ہتھیار سے بے دخل کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن چونکہ ان کے پاس تمام جائز دستاویزات موجود ہیں اس لیے ان کے نام این آر سی میں شامل ہوئے اور بی جے پی انھیں اجاڑنے کی سازش میں ناکام ہو گئی۔
Published: undefined
لیکن اس نے اسمبلی انتخابات کے موقع پر ہندو ووٹروں سے یہ وعدہ کیا کہ اگر ان کی حکومت دوبارہ آئی تو وہ ان مسلمانوں کو وہاں سے اجاڑ دے گی۔ دوبارہ برسراقتدار آنے کے بعد جب ہیمت بسوا سرما کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا تو وہاں کے لوگوں میں خوف و دہشت کا ماحول پیدا ہو گیا۔ چونکہ سرما مسلمانوں کے خلاف بیانات دیتے رہتے ہیں اور وہ مسلم دشمن سیاست کی بنیاد پر ہی یہاں تک پہنچے ہیں اس لیے انھوں نے موقع دیکھ کر مسلمانوں کو اجاڑنے کا حکم دے دیا۔ پھر کیا تھا۔ سیکڑوں پولیس جوانوں کی معیت میں وہاں انہدامی کارروائی شروع کر دی گئی۔ پہلے 21 ستمبر کو دھولپور نمبر ایک دو اور تین میں کارروائی کی گئی اور سیکڑوں خاندانوں کو اجاڑ دیا گیا۔ اس کے بعد 23 ستمبر کو پھر کارروائی کی گئی۔
Published: undefined
ان دونوں کارروائیوں کے نتیجے میں آٹھ سو مسلم خاندانوں کو اجاڑا گیا ہے جس کی وجہ سے پانچ ہزار افراد بے گھر بار ہو گئے۔ ان میں عورتیں بچے، بزرگ اور بیمار بھی شامل ہیں۔ ان خانما برباد افراد نے عارضی سائبانوں میں پناہ لینے کی کوشش کی۔ اسی دوران وہاں بارش بھی ہونے لگی اور ان کو کہیں جائے پناہ نہیں ملی۔ یہ سب تو اپنی جگہ پر مگر 23 ستمبر کو سیپاجھاڑ میں ہونے والی کارروائی کے دوران جو بربریت ہوئی ہے اس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس سلسلے میں وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں ظلم و بربریت کے مناظر دیکھے جا سکتے ہیں۔
Published: undefined
ویڈیو میں ایسا نظر آرہا ہے کہ چند افراد جن کے ہاتھوں میں لاٹھیاں ہیں بندوقوں سے لیس پولیس والوں کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اس پر پولیس نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کر دی۔ جس کے نتیجے میں ایک شخص کے سینے پر گولی لگی اور وہ زمین پر گر گیا۔ اس کے گرتے ہی پولیس والے اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور بری طرح لاٹھی ڈنڈوں کی بارش کر دیتے ہیں۔ اس کارروائی کے دوران وہ شخص یا تو ختم ہو چکا ہوتا ہے یا بے ہوش ہو جاتا ہے۔ اسی دوران کیمرہ لیے ہوئے ایک فوٹو گرافر دوڑ کر اس کے بے حس جسم پر کودتا ہے اور بہت جوش و خروش میں اس کے جسم کو مکے مارتا ہے۔ اسے واپس بلایا جاتا ہے۔ لیکن وہ پھر ایسا کرتا ہے۔ کچھ دیر کے بعد اسے پھر جوش آتا ہے اور وہ پھر دوڑ کر اس کے جسم پر کودتا ہے اور پھر مکے مارتا ہے۔ ایسا اس نے تین بار کیا۔ پھر اس کو پولیس والے وہاں سے ہٹاتے ہیں۔
Published: undefined
بعد میں معلوم ہوا کہ اس شخص کا نام بجے شنکر بنیا ہے اور وہ ایک پیشہ ور فوٹو گرافر ہے۔ ضلع انتظامیہ نے انہدامی کارروائی کی ریکارڈنگ کے لیے ا س کی خدمات حاصل کی تھیں۔ اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد اسے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے اس تشدد کی جانچ کے لیے ایک عدالتی کمیٹی کا اعلان کیا ہے۔ لیکن ان کے جو بیانات آرہے ہیں یا پولیس والوں نے جو بیانات دیئے ہیں ان سے ایسا نہیں لگتا کہ ان لوگوں کو اس بربریت پر کوئی شرمندگی ہے۔ کوئی احساس جرم ہے۔ یا وہ اسے غلط اور برا سمجھ رہے ہیں۔ ہلاک ہونے والے شخص کا نام معین الحق ہے اور اس کی عمر 33 سال تھی۔
Published: undefined
وزیر اعلیٰ نے پولیس کارروائی کی حمایت کی ہے۔ پولیس کا بھی کہنا ہے کہ اس نے جو کچھ کیا اپنے تحفظ میں کیا۔ حالانکہ جانچ کا حکم دے دیا گیا ہے لیکن مذکورہ بیانات اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ جانچ کا حکم محض خانہ پری ہے۔ اس کا کوئی نتیجہ برآمد ہونے والا نہیں ہے۔ اور اگر کوئی رپورٹ آئی بھی تو اس میں مسلمانوں کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جائے گا۔ انھی کو ناجائز قابضین کہا جائے گا۔ پولیس نے اس واقعہ کے فوراً بعد کہا تھا کہ دو ہزار مسلح افراد نے پولیس پر حملہ کر دیا تھا۔ جبکہ ویڈیو میں بہت واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ چند افراد پولیس کی جانب بڑھ رہے ہیں اور ان میں سے کئی نہتے ہیں۔ اگر ان کے پاس کوئی ہتھیار ہے تو صرف لاٹھی یا ڈنڈا ہے۔ کیا چند افراد سیکڑوں پولیس والوں کے لیے اتنا بڑا خطرہ بن گئے تھے جو پولیس نے ان پر فائرنگ کی اور اس طرح دو افراد کی جان لے لی۔
Published: undefined
انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانب سے اس واقعہ کے خلاف شدید احتجاج کیا جا رہا ہے۔ لیکن ایسا نہیں لگتا کہ کسی خاطی کو سزا ہوگی یا جو فوٹو گرافر گرفتار کیا گیا ہے اسے کوئی سزا ملے گی۔ اسے چند دنوں کے بعد ضمانت مل جائے گی اور کوئی تعجب نہیں کہ اسے بی جے پی میں شامل کر لیا جائے اور اسے کوئی منصب مل جائے۔ کیونکہ جب سے ملک میں بی جے پی کی حکومت قائم ہوئی ہے یہی دیکھا گیا ہے کہ مسلمانوں پر ظلم ڈھانے والے ہر مجرم کو انعام ملا ہے۔ اگر وہ بی جے پی کا رکن نہیں ہے تو اسے بی جے پی میں شامل کیا گیا ہے۔ اگر بی جے پی میں ہے تو اسے کوئی عہدہ دیا گیا ہے۔ اگر وہ پولیس والا ہے تو اسے ترقی مل گئی ہے۔ لہٰذا خیال کیا جاتا ہے کہ اس کارروائی میں شامل پولیس والوں کو انعام دیا جائے گا اور ان کی ترقی ہو جائے گی۔
Published: undefined
دراصل یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ بی جے پی نے ملک میں نفرت انگیز سیاست شروع کی ہے۔ اس نے مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف ایک ایسا ماحول بنا دیا ہے کہ ان کا جینا مشکل ہو گیا ہے۔ موب لنچنگ کے واقعات بدستور جاری ہیں۔ کہیں کوئی ویڈیو منظر عام پر آجاتا ہے تو معلوم ہو جاتا ہے۔ ورنہ بہت سے واقعات چھپ جاتے ہیں ان کا علم ہی نہیں ہو پاتا۔ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بی جے پی کی اس نفرت انگیز سیاست کی وجہ سے ہی مسلمانوں کو ہلاک کرنے یا ان پر تشدد کرنے والے خود ہی اس کارروائی کی ویڈیو بناتے ہیں اور پھر انھیں سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہیں۔ انھیں اپنی اس غیر قانونی حرکت پر کوئی ندامت ہونے کے بجائے فخر ہوتا ہے۔ وہ خود کو حکومت و انتظامیہ کی نگاہوں میں لانا چاہتے ہیں اور یہ بتانا چاہتے ہیں کہ وہ بھی مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہیں انھیں بھی کوئی عہدہ دیا جائے۔
Published: undefined
ایک طرف وزیر اعظم نریندر مودی سب کا ساتھ سب کا وکاس کی بات کرتے ہیں لیکن ایسے لوگوں کی کارستانیوں پر چپ رہتے ہیں۔ ان کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے کا کوئی اشارہ نہیں دیتے اور دوسری طرف آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ ہندو اور مسلمان ایک ہیں اور موب لنچنگ کرنے والے ہندو نہیں ہیں۔ لیکن کیا وہ یہ بتائیں گے یہ پولیس والے کیا ہیں۔ وہ فوٹو گرافر کیا ہے۔ وہ لوگ ہندو ہیں یا نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ لوگ تو انسان بھی کہلانے کے حقدار نہیں ہیں۔
Published: undefined
اس بات کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اترپردیش اور دیگر ریاستوں میں انتخابات کے آتے آتے اس قسم کے مزید واقعات ہوں گے تاکہ بی جے پی ان کو بھنا سکے اور اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچا کر ایک بار پھر اقتدار میں واپسی کرے۔ چونکہ اس کے پاس دکھانے کے لیے کچھ نہیں ہے اس لیے اس قسم کی گھناونی حرکتوں سے ملک میں ہندووں اور مسلمانوں کو باٹنا چاہتی ہے تاکہ جذباتیت اور دھارمک ایشوز پر الیکشن لڑا جائے اور ووٹوں کی فصل کاٹی جائے۔ اگر اس ملک میں نفرت کی یہ سیاست اسی طرح چلتی رہی تو پورا ملک تباہ و برباد ہو جائے گا۔ اس وقت ملک کو بچانے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا آج اپوزیشن جماعتوں پر بہت بڑی ذمہ داری آن پڑی ہے کہ وہ سرگرم ہوں اور اس حکومت کو اکھاڑ پھینکیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز