نئی دہلی (پریس ریلیز): سپریم کورٹ نے نومبر 2019 میں پرتیک ہزیلا کی جگہ ہتیش دیو شرما کی تقرری کے خلاف داخل عرضی کو منظور کرتے ہوئے حکومت کو نوٹس جاری کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ جواب دینے کے لئے حکومت کو چار ہفتوں کا وقت دیا ہے۔ علاوہ ازیں، پرتیک ہزیلا کی ان فیس بک پسٹوں کو بھی ڈلیٹ کرنے کا حکم دیا ہے جو انہوں نے بنگلہ دیشی مسلمانوں کے خلاف کی تھیں۔
جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے جاری ایک پریس ریلیز کے مطابق، سپریم کورٹ میں جمعیۃ علماء ہند اور آمسو کی طرف سے داخل دودرخواستوں کو چیف جسٹس ایس اے بوبڑے، جسٹس بی آرگوی اور جسٹس سوریہ کانت کی تین رکنی بینچ نے سماعت کے لئے قبول کر لیا ان میں سے ایک درخواست میں پرتیک ہزیلا کی جگہ آسام میں نئے اسٹیٹ کوآرڈینیٹر ہتیش دیو شرما کی تقرری کو چیلنچ کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ چونکہ شہریت کا معاملہ انسانی زندگی سے جڑا ہوا ایک حساس مسئلہ ہے اس لئے اس اہم عہدے پر کسی ایسے شخص کی تقرری کو درست نہیں ٹھہرایا جاسکتا جس کی غیر جانبداری مشکوک ہو۔
Published: undefined
درخواست پر بحث کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے وکیل کپل سبل نے عدالت سے درخواست کی کہ ہتیش دیو شرما ایک متنازعہ شخصیت ہیں اس لئے ان کی تقرری پر دوبارہ غور کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ وہ غیرجانبدار شخص نہیں ہیں، اپنی اس بات کی دلیل میں کپل سبل نے کہا کہ جب شرما کچھ نہیں تھے تو انہوں نے آسام میں جاری این آرسی عمل کے دوران مسلسل سوشل میڈیا پر قابل اعتراض پوسٹ ڈالی تھیں، جن سے ان کے جانبدارانہ رویہ کا برملا اظہار ہوتا ہے۔
Published: undefined
قابل ذکر ہے کہ اپنی ایک پوسٹ میں شرما نے لکھا تھا کہ اگر کوئی ’بنگالی آسامی بھی بولتا ہے تو محض زبان کی بنیادپر اسے این آرسی میں شامل نہیں کیا جانا چاہئے۔‘ اپنی بحث کے دوران کپل سبل نے کہا کہ اس تعلق سے ہتیش دیوشرما اور آسام سرکارکو جواب دینا چاہئے کہ آخر اس طرح کی متنازعہ اور قابل اعتراض باتیں سوشل میڈیا پر کیوں کہی گئیں اور آسام سرکار نے ان سب کو نظرانداز کرتے ہوئے شرما کو اسٹیٹ کوآرڈینیٹرکیوں مقرر کیا؟
Published: undefined
دوسری درخواست میں این آرسی کے بعد آسام میں پیداہوئے ایک بڑے انسانی المیہ پر عدالت کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی گئی ہے اور اس میں کہا گیا ہے کہ ریاست میں ایسے لاتعدادواقعات سامنے آئے ہیں جن میں والدین کا نام تو این آرسی میں ہے مگر ان کے بچوں کے نام این آرسی میں شامل نہیں ہے چنانچہ اب ان بچوں کو حراستی کیمپوں میں بھیجوانے کی تیاری ہورہی ہے، جمعیۃعلماء ہند کی اس اہم درخواست میں عدالت سے یہ گزارش کی گئی ہے کہ اس بات کو یقینی بنایاجانا چاہئے کہ این آرسی سے باہرہوئے ایسے بچوں کو جن کی عمریں چودہ سال سے کم ہیں حراستی کیمپوں میں نہیں بھیجاجائے گا تاوقتیکہ تمام قانونی عمل مکمل نہ ہوجائے یہ درخواست بھی کی گئی ہے کہ اس طرح کے معاملوں کو ٹریبونل میں بھیجنے سے پہلے ایک بارپھر دیکھاجانا چاہئے اور ان بنیادی وجوہات کی نشاندہی کی جانی چاہئے کہ والدین کے ہندستانی ہوتے ہوئے ان کے بچے غیر ملکی کیسے ہوگئے؟ اس کے جواب میں اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال نے بھارت سرکارکی نمائندگی کرتے ہوئے بینچ کے سامنے کہا کہ چودہ سال سے کم عمر کے بچوں کو حراستی کیمپوں میں نہیں بھیجاجائے گا عدالت نے اٹارنی جنرل کے اس بیان کو اپنے آڈرکے ریکارڈمیں درج کرلیا اور دونوں درخواستوں پر مرکز اور آسام سرکارکو نوٹس جاری کرکے ان امور پر چارہفتے کے اندرجواب طلب کیا ہے۔
Published: undefined
جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولاناسید ارشدمدنی نے آج کی قانونی پیش رفت پر اطمینا ن کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ یہ ان والدین کے لئے ایک خوش آئند خبر ہے جن کے بچوں کے نام این آرسی میں شامل نہیں ہیں، اب یہ بچے اپنے والدین کے ساتھ رہیں گے اور ان کے ساتھ ہی رہ کر قانونی عمل کو مکمل کرسکیں گے، انہوں نے کہا کہ یہ بات حیرت انگیز ہی نہیں ایک بڑاانسانی المیہ ہے کہ والدین تو ہندوستانی ہیں مگر ان کے بچے غیر ملکی قراردیدئے گئے ہیں، انہوں نے سوال کیا کہ آخر این آرسی کی تیاری میں یہ کس طرح کا قانونی فارمولہ اپنا یا گیا ہے۔ یہ قانونی عمل کا تضادہے یا اس کے پیچھے کوئی دوسری وجہ چھپی ہوئی ہے اس کا پتہ لگایا جانا چاہئے،اس کے ساتھ ہی مولانا مدنی نے کہا کہ جب ایک ریاست میں تضادات کا یہ حال ہے تو جب پورے ملک میں این آرسی لاگوہوگی تو اس وقت یہ تصویر کس قدربھیانک ہوگی اس کا بس تصورہی کیا جاسکتاہے۔
Published: undefined
انہوں نے کہا کہ دلیلیں دی جارہی ہیں کہ لوگ ناحق شہریت ترمیمی قانون اور این آرسی کی مخالفت کررہے ہیں کسی کو بھی ان سے نہیں ڈرنا چاہئے اور ملک کے کسی شہری کی شہریت کو کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن آسام میں اس کا جو تلخ تجربہ ہوا اور اس کے جوخطرناک نتائج سامنے آئے ہیں اس نے ملک کے ہر انصاف پسندکو جھنجھوڑکررکھ دیا ہے اور وہ انہی خدشات کے پیش نظراس طرح کے قانون کی مخالفت کررہے ہیں کیونکہ آج این آرسی کے بعد جو انسانی بحران آسام میں پیداہوا ہے وہ کل کو ملک کی ہر ریاست میں پیداہوگا اور اس کی وجہ سے پورے ملک میں انتشاراور خوف کی ایک ایسی لہر پیداہوسکتی ہے جوایک بڑی انسانی تباہی کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ پرتیک ہزیلا کی جگہ نئے کوآرڈینیٹر کی تقرری پر انہوں نے کہا کہ شہریت زندگی اور موت سے جڑاہوا ایک انتہائی حساس معاملہ ہوتاہے اور آسام میں کچھ لوگوں نے تو اسے مذہب سے جوڑ دیا ہے ایسے میں اس اہم عہدے پر کسی ایسے شخص کی تقرری انتہائی غلط اور نامناسب بات ہے جس کی جانبداری پہلے ہی سے مشکوک ہوچکی ہے۔
Published: undefined
انہوں نے کہا کہ اس طرح کے عہدوں پر تو کسی ایسے آدمی کی تقرری ہونی چاہئے تھی جو ایماندارہوتے ہوئے غیر جانبداربھی ہواور سیاست و مذہب سے اوپر اٹھ کر اپنے فرائض کی انجام دہی کرسکے، مولانا مدنی نے کہا کہ یہ بات باعث اطمینان ہے کہ عدالت نے اس پر مرکزاور آسام سرکارسے جواب طلب کیا ہے چنانچہ امید کی جانی چاہئے کہ عدالت اس معاملہ کے تمام پہلوں پر غورکرنے کے بعد کوئی ایسا فیصلہ دے جو ملک ریاست اور خاص طورپرآسام کے شہریوں کے حق میں مفید ثابت ہوگی۔ واضح رہے کہ آج کی عدالتی کارروائی کے دوران آمسو اور جمعیۃعلماء آسام کے ذمہ داروں کے ساتھ ساتھ ایڈوکیٹ آن ریکارڈ فضیل ایوبی اور سینئر ایڈوکیٹ سلمان خورشید بھی موجودرہے۔واضح رہے کہ جمعیۃعلماء آسام کے صدرمولانا مشتاق عنفر اور ان کی ٹیم این آرسی کے مسئلہ کو شروع ہی سے دیکھ رہی ہے اور متاثرین کوہر طرح کی قانونی امدادبھی پہنچارہی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined