نریندر مودی کی حکومت میں شمال مشرقی ریاست آسام میں موجود ایسے افراد جن کے پاس شناختی دستاویزات نہیں ہیں، انہیں 'گھس بیٹھیے‘ قرار دیا جاتا ہے، اب یہ معاملہ آسام سے نکل کر پورے ملک کے مسلمانوں کی شناخت تک بڑھتا جا رہا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ دائیں بازو کی ہندو قوم پرست حکومت مسلمانوں سے متعلق ناروا سلوک کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
Published: undefined
راحت علی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا، ''میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک دن مجھے اپنی شہریت کی تصدیق کروانی پڑے گی۔ میں ہندوستانی ہوں، میں آسام میں پیدا ہوا اور ہم یہاں کئی نسلوں سے رہ رہے ہیں۔‘‘
Published: undefined
مگر جب راحت علی دستاویزات سے اپنی شہریت ثابت نہ کر سکے، تو انہیں 'بنگلہ دیشی‘ قرار دے کر ایک حراستی مرکز بھیج دیا گیا۔ تین برس تک حراستی مرکز میں رہنے کے بعد ان کے بیٹوں نے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر کے مقامی ٹریبیونل کے فیصلے کو رد کروایا اور تب کہیں جا کر راحت علی کو رہائی ملی۔ مگر اس قانونی جنگ کے لیے وکلا کی فیس ادا کرنے کے لیے اس گھرانے کو اپنی زمین اور مویشی بیچنا پڑے۔
Published: undefined
33 ملین نفوس کی ریاست آسام میں اب بھی چار ملین سے زائد افراد ایسے ہیں، جنہیں شناخت کے مسائل ہیں۔ گزشتہ برس جولائی میں نیشنل رجسٹر آف سیٹیزن کے نام سے ایک نیا قانونی مسودہ ان افراد کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔
Published: undefined
اس مسودے کے تحت مقامی افراد کو یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ یا ان کے والد 1971 سے پہلے اس ریاست میں ہی بستے تھے، کیوںکہ 1971 میں بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کے وقت لاکھوں افراد ہجرت کر کے بھارت پہنچے تھے۔
Published: undefined
خبر رساں اداروں کے مطابق کچھ افراد تو اس بابت کیے گئے فیصلوں کے بعد ہائی کورٹ تک میں اپیل کے ذریعے اپنی شہریت واضح کر چکے ہیں، تاہم اب بھی دو ملین افراد ایسے ہیں، جو رواں ماہ کے آخر تک اس قانون کی زد میں آئیں گے۔
Published: undefined
عبدالسبحان بنگالی بولنے والے ان ہزاروں مسلمانوں میں سے ایک ہیں، جنہیں 'مشکوک یا مشتبہ ووٹرز‘ کہا جاتا ہے یعنی ان افراد کے نام نیشنل رجسٹر آف سٹیزن ( این آر سی) کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔ ریاست آسام کی حکومت اس فہرست کو کل پیر کو جاری کرنے والی ہے۔
Published: undefined
ساٹھ سالہ عبدالسبحان کہتے ہیں، ’’اگر حکومت نے ہمیں غیر ملکی قرار دینے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے، تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟ این آر سی سے ہمیں ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ ہمارے لوگوں کو یہاں ہلاک کیا گیا ہے، ہم یہ جگہ نہیں چھوڑیں گے۔‘‘
Published: undefined
یہ بات اہم ہے کہ ماضی میں بھی اس ریاست میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی پر مبنی حملوں کے درجنوں واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ فروری 1983ء میں آسام میں مقامی شہریوں نے مختلف علاقوں میں مسلم برادری پر حملے کیے تھے۔ ان کا خاص نشانہ وہ افراد تھے، جو مشرقی پاکستان بننے کے بعد سے وہاں رہ رہے تھے۔ ان فسادات کو 'نیلی قتل عام ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
Published: undefined
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پانچ گھنٹے جاری رہنے والی اس قتل و غارت گری میں دو ہزار کے لگ بھگ افراد مارے گئے تھے جبکہ دیگر ذرائع ہلاک شدگان کی تعداد تقریباً پانچ ہزار بتاتے ہیں۔ آسام کی مقامی آبادی اس ریاست میں آباد 'غیر ملکیوں‘ کے حوالے سے شدید تحفظات رکھتے ہے۔ ان کے خیال میں ان افراد کی وجہ سے مقامی آبادی بے روزگار ہو رہی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined