دِسپور: آسام میں ہیمنت بسوا سرما کی قیادت والی نئی بی جے پی حکومت قائم ہونے کے بعد سے گزشتہ دو مہینوں کے دوران ریاست میں لگاتار انکاؤنٹر ہو رہے ہیں اور مڈبھیڑ کے ان واقعات کی عدالت کے ذریعے تفتیش کرائے جانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ نیوز18 ہندی پورٹل کی رپورٹ کے مطابق آسام میں گزشتہ دو مہینوں کے دوران کم از کم 23 افراد کو پولیس حراست میں گولی مار دی گئی، جن میں سے 15 کی موت واقع ہو گئی۔
Published: undefined
آسام پولیس نے جن لوگوں کو گولی کا شکار بنایا ان پر مویشی اسمگلنگ، ریپ، قتل، نشیلی اشیا کی اسمگلنگ اور ڈکیتی جیسے معاملے درج تھے۔ رپورٹ کے مطابق ان 23 معاملوں میں 10 ملی ٹینٹوں کو موت کے گھاٹ اتارے جانے کا واقعہ بھی شامل ہے۔ پانچ جولائی کو تمام پولیس تھانوں کے انچارجوں کے ساتھ پہلی روبرو منعقد ہونے والی میٹنگ کے دوران وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے کہا تھا کہ اگر جرائم پیشہ افراد حراست سے بھاگنے کا پولیس پر حملہ کرنے کے لئے ہتھیار چھیننے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں گولی مارنا ’چلن‘ ہونا چاہیئے!
Published: undefined
اس کے بعد آسام کے انسانی حقوق کمیشن نے از خود نوٹس لیتے ہوئے ریاستی حکومت کو گزشتہ دو مہینوں کے دوران پیش آنے والے مڈبھیڑ کے ان واقعات کی جانچ کرانے کا حکم دیا جن میں مبینہ مجرم کی یا تو موت ہو گئی یا وہ زخمی ہو گیا۔ ادھر، ہیمنت بسوا نے جمعرات کے روز تمام الزامات کا جواب دیا ہے۔ نیوز18 کی رپوٹ کے مطابق سرما نے کہا، ’’ریاستی پولیس کو قانون کے دائرے میں رہ کر مجرموں کے خلاف کارروائی کرنے کی پوری آزادی ہے۔‘‘
Published: undefined
اسمبلی میں وقفہ صفر کے دوران قائم حزب اختلاف دیب برت سیکیا نے بھی ریاست میں انکاؤنٹروں کا معاملہ اٹھایا۔ بحث کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے تمام ارکان اسمبلی سے اپیل کی کہ وہ اس پیغام کو عام کریں کہ ایوان کسی بھی طرح کے تشدد کے خلاف ہے۔ سرما نے ایوان کو مطلع کیا کہ گزشتہ دو مہینوں کے دوران پولیس کے ساتھ ہونے والی مڈبھیڑ میں 15 مبینہ مجرم مارے گئے ہیں جبکہ 23 زخمی ہوئے ہیں۔ یہ مڈبھیڑ مبینہ مجرموں کی جانب سے پولیس کے ہتھیار چھین کر حملہ کرنے کی کوشش کے دوران ہوئیں۔
Published: undefined
اسی مہینے آسام کے انسانی حقوق کمیشن نے مارے گئے لوگوں کے حوالہ سے جانچ کرانے کا حکم دیا۔ انگریزی اخبار دی انڈین ایکسپریس کے مطابق کمیشن کے رکن نابا کمل بورا نے کہا ، ’’میڈیا رپورٹوں کا دعویٰ ہے کہ جب مبینہ مجرم مارے گئے تو ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑی لگی ہوئی تھی۔ لہذا ہمیں یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہوا تھا!
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined