جموں و کشمیر کے کٹھوعہ ضلع میں آٹھ سالہ بچی آصفہ بانو کی عصمت دری اور قتل کی تفتیش میں جو حقائق منظر عام پر آئے ہیں ان سے انسانیت شرمسار ہے اور محکمہ پولس کی قلعی بھی کھل گئی ہے۔ ہندی روزنامہ’ جن ستا ‘ کے مطابق معاملے کو رفع دفع کرنے کے لئے ملزمان نے پولس کی تفتیشی ٹیم کو 1.5 لاکھ روپے کی رشوت دی، اس کا انکشاف جموں و کشمیر کی کرائم برانچ کی طرف سے عدالت میں دائر فرد جرم (چارج شیٹ) سے ہوا ہے۔ پولس نے آصفہ بانو کی آبروریزی اور قتل کے 8 ملزمان کے خلاف فرد جرم عدالت میں داخل کر دی ہے۔
چند ماہ قبل ہندووادی عناصر آصفہ بانو آبروریزی اور قتل کے ملزمان کے حق میں جموں میں ’ترنگا یاترا‘ نکال چکے ہیں۔ اس دفعہ جموں کے وکلاء نے بھی اسی طرح کی حرکت کو انجام دیا ہے۔ پولس کی کرائم برانچ جب فرد جرم داخل کرنے کے لئے عدالت کی طرف گامزن ہوئی تو راستہ میں جموں وکلاء نے ان کی مخالفت کی اور احتجاج کیا۔ اتنا ہی نہیں آج جموں بار ایسو سی ایشن کی قیادت میں بند کا اہتمام کیا گیا ہے ۔ احتجاج کرنے والے وکلاء کے خلاف پولس کی طرف سے ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔
روزنامہ انڈین ایکسپریس کے مطابق آصفہ عصمت دری اور قتل معاملہ میں پولس کی طرف سے جو فرد جرم داخل کی گئی ہے اس میں 8 افراد کے کردار کا ذکر کیا گیاہے اور اس میں کئی حیران کر دینے والی چیزیں ہیں۔ یعنی جب 10 جنوری کی شام کو آصفہ کو اغوا کیا گیا تو اس کے ساتھ نابالغ ملزم نے عصمت دری کی۔ اس کے بعد اس نے یوپی کے میرٹھ میں موجود اپنے دوست وشال جنگوترا کو بھی ریپ کے لئے بلایا۔ وشال میرٹھ سے جموں پہنچا اور اس نے کٹھوعہ کے مندر میں اغوا کر کے رکھی گئی بچی کو اپنی حوس کا شکار بنایا۔ چارج شیٹ کے مطابق عصمت دری اور قتل کا سرغنہ ریونیو کا ریٹائرڈ افسر سنجی رام ہے اور اسی کے کہنے پر اس کے نابالغ بھتیجے نے اپنے ایک ساتھی کے ساتھ مل کر آصفہ بانو کا اغوا کیا تھا۔
Published: undefined
چارج شیٹ کے مطابق آصفہ کے والد محمد یوسف نے 12 جنوری کو پولس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی تھی۔ لیکن جانچ میں شامل خصوصی تحقیقاتی ٹیم کا افسر کھجوریا بھی ملزمان کے ساتھ مل گیا۔ ملزمان نے ہیڈ کانسٹیبل کے ذریعہ 1.5 لاکھ روپے رشوت دے کر معاملےکو رفع دفع کرانے کا انتظام کر لیا۔ جب ملزمان بچی کا قتل کرنے جا رہے تھے تو کھجوریا نے انہیں روک دیا اور کہا کہ پہلے وہ بھی ریپ کرے گا پھر قتل کرنا۔ ملزمان نے 10 جنوری کو بچی کااغوا کیا اور 15 جنوری تک مسلسل اس کی آبروریزی کی گئی۔ بلآخر 15 جنوری کو آصفہ بانو کا گلا دباکر اور پتھر مار کر قتل کر دیا گیا۔
روزنامہ کشمیر عظمیٰ کے مطابق پولس کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ایس پی وید نے کہا ’’ پولس نے اپناکام قانون کی روشنی میں کردیا ہے اوراب یہ عدالت کاکام ہے کہ وہ آگے کیاکارروائی کرتی ہے۔ ‘‘ ڈی جی پی نے واضح کیاکہ وہ اُن لوگوں سے کوئی اتفاق نہیں رکھتے جواس قانونی معاملےکودوسرارنگ دینےکےفراق میں ہیں۔پولس نے وکلاء کیخلاف کیس نمبر131 /2018 دفعات 341,353,147 ا ٓر پی سی معاملہ درج کیا ہے۔
8 سالہ بچی آصفہ کی آبروریزی اور قتل کے سلسلہ میں وکلاء کے ایک گروپ نے پولس کی کرائم برانچ کو کٹھوعہ کی سی جے ایم عدالت میں فرد جرم داخل کرنے سے روکنے کی کوشش کرنے پر کشمیر کے سماجی کارکنان نے تشویش کا اظہار کیا ہے اور معاملہ کو جموں سے کشمیر منتقل کرنے کی اپیل کی ہے۔
کشمیر بار ایسوسی ایشن نے جموں کے وکلاء کے احتجاج کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کے دونوں خطہ کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ بار کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہےکہ ایک 8 سالہ بچی کی آبروریزی اور قتل کے مقدمہ کی منصفانہ کارروائی کو متاثر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کشمیر بار ایسو سی ایشن نے جموں کے اپنے ہم منصب پر الزام عائد کیا ہے کہ اس سے پہلے بھی کئی معاملات میں وہاں تعصبانہ ذہنیت کا مظاہرہ کیا گیا ہے جو ریاست کے حق میں نہیں ہے۔
دریں اثنا سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر وکاس سنگھ نے بھی جموں بار ایسو سی ایشن کی طرف سے کئے گئے احتجاج کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا ’’مظاہرہ ،بند جیسے عمل کی حمایت نہیں کی جانی چاہیے۔ وکلاء جس پیشے سے وابستہ ہیں ان کا فرض ہیں کہ وہ قانون کی حکمرانی کے نفاذ میں اپنا تعاون دیں۔ یہ ایک انتہائی حساس معاملہ ہے۔ ملک میں ایک خطرناک رجحان نے جنم لے لیا ہے جس کے نتائج سنگین ہوں گے۔ ‘‘
ادھر جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے پولس اور حفاظتی اداروں کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ ایڈوکیٹ دیپکا سنگھ رجاوت کو پوری حفاظت فراہم کریں، جوکہ آصفہ بانو قتل معاملہ کو دیکھ رہی ہیں۔ جموں بار ایسو سی ایشن کے صدر کی طرف سے حال ہی میں دیپکا کو دھمکی دی گئی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined