ملک و بیرون ممالک میں اردو شاعری کے ذریعہ اپنی ایک الگ شناخت بنانے والے اشوک ساحل نے بھی آج اس دنیا کو الوداع کہہ دیا۔ 65 سالہ اشوک ساحل کافی دنوں سے گردے کی بیماری میں مبتلا تھا اور ان کا علاج چل رہا تھا۔ انھوں نے میرٹھ کے ایک پرائیویٹ اسپتال میں آخری سانس لی اور میڈیا ذرائع سے موصول ہو رہی خبروں کے مطابق مظفر نگر کے شکتیرتھ میں گنگا گھاٹ پر بعد دوپہر سپرد آتش کیا گیا۔
Published: undefined
اشوک ساحل یوں تو عوامی مسائل کو اپنی شاعری کے ذریعہ لوگوں کے سامنے لانے کا بہترین ہنر رکھتے تھے، لیکن اشعار میں اردو الفاظ کے استعمال نے انھیں ایک الگ پہچان عطا کی۔ انھوں نے ایک موقع پر خود اس بات کا اعتراف کیا تھا اور کہا تھا کہ:
اردو کے چند لفظ ہیں جب سے زبان پر
تہذیب مہرباں ہے مرے خاندان پر
Published: undefined
ہندو ہونے کے باوجود انھوں نے اپنی شاعری میں کبھی یہ ظاہر نہیں ہونے دیا اور مسلم تہذیب کو سامنے رکھتے ہوئے کئی اشعار کہے۔ انھوں نے رواں سال 26 جنوری کے موقع پر لال قلع میں منعقد قومی مشاعرہ میں بھی اپنے بہترین کلام سے لوگوں کو محظوظ کیا تھا۔ وہ گزشتہ 2 سالوں سے گردے کے انفیکشن میں مبتلا تھے اور گزشتہ کچھ دنوں سے وہ اپنی بیٹیوں کے پاس غازی آباد میں رہ رہے تھے۔ جب ان کی طبیعت ناساز ہوئی تو میرٹھ اسپتال کے اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔
Published: undefined
اشوک ساحل کے پسماندگان میں تین بیٹیاں پریم، شیوانی اور آکانکشا ہیں۔ ان کی بیوی شوبھا بھگت ضلع اسپتال میں نرس تھی جو کہ 3 سال قبل انتقال کر گئی تھیں۔ اس کے بعد سے ہی اشوک ساحل ٹوٹ سے گئے تھے۔ آج جب ان کا انتقال ہو گیا ہے تو ان کے چاہنے والوں میں غم کا ماحول دیکھنے کو مل رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر ان کے کئی مشہور اشعار وائرل ہو رہے ہیں۔ دو اشعار یہاں بھی پیش کیے جا رہے ہیں جو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں کہ اشوک ساحل کس اعلیٰ معیار کی شاعری کرتے تھے اور ان کا انداز کتنا خوب تھا...
Published: undefined
بلندیوں پر پہنچنا کمال نہیں
بلندیوں پر ٹھہرنا کمال ہوتا ہے
---
دل کی بستی میں اجالا ہی اجالا ہوتا
کاش تم نے بھی کسی درد کو پالا ہوتا
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined