پنجاب کے کسان جگپریت کا کہنا ہے کہ وہ پوری تیاری سے آئے ہیں اور ان کے پاس 6 ماہ کا راشن موجود ہے۔ وہ موگا ضلع کے رہنے والے ہیں اور اپنے دو درجن کسان ساتھیوں کے ساتھ جب وہ مظاہرہ کے لئے 26 نومبر کو نکلے تھے تو اپنے ساتھ اناج، سبزی، لحاف اور گدے ایک ٹرک میں لے کر آئے تھے۔ سنگھو بارڈر پرجو ہزاروں ٹرک کھڑے ہوئے ہیں اس میں سے ایک ٹرک ان کا بھی ہے، ان کسانوں نے اپنے ان ٹرکوں کو عارضی کمروں میں تبدیل کر دیا ہے جس میں وہ رات گزارتے ہیں۔
Published: 02 Dec 2020, 12:40 PM IST
57 سالہ جگپریت نے بتایا کہ جب وہ ہریانہ سے گزر رہے تھے تو وہاں کی حکومت ظالموں کی طرح پیش آ رہی تھی جبکہ عوام نے ان کے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کیا۔ ان کے بقول ’’ہریانہ کے لوگوں نے ایک مہینے سے زیادہ کا راشن انہیں دیا جبکہ ابھی تک ہم نے ان کا دیا ہوا راشن چھوا تک نہیں ہے‘‘۔ لاکھوں کی تعداد میں کسان اپنے ٹرکوں اور ٹریکٹروں میں نئے زرعی قوانین کےخلاف احتجاج کرنے دہلی کے لئے اپنے گاؤں سے آئے ہیں لیکن ان کو مختلف سرحدوں پر روک دیا گیا۔ سنگھو بارڈر کا ہی دس کلومیٹر کا علاقہ 26 نومبر سے ہی پوری طرح بند کر دیا گیا ہے۔
Published: 02 Dec 2020, 12:40 PM IST
واضح رہے ستمبر میں جب سے یہ نئے زرعی قوانین تشکیل دیئے گئے ہیں تب سے بڑی تعداد میں کسان ان قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کسانوں کا تعلق ہریانہ اور پنجاب کی 32 یونینوں سے ہے۔ یہ کسان چاہتے ہیں کہ حکومت نئے قوانین واپس لے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ یہ نئے قوانین کارپوریٹ گھرانوں کو فائدہ پہنچانے والے ہیں اور اس سے غریب کسان کو کافی نقصان ہو گا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان قوانین سے جو ان کو پیداوار کی کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کی ایک گارنٹی ملی ہوئی ہے وہ ختم ہو جائے گی۔
Published: 02 Dec 2020, 12:40 PM IST
اس کے برعکس وزیر اعظم مودی کا کہنا ہے کہ ان قوانین سے کسانوں کو فائدہ ہوگا، لیکن کسانوں کا کہنا ہے کہ ابھی تک جو ان کو ایم ایس پی کی گارنٹی تھی اس کو قانون میں شامل کیا جائے، جبکہ وزیر اعظم اور حکومت اس بات کو زبانی کہہ رہی کہ ایم ایس پی کی گارنٹی رہے گی۔ سنگھو بارڈر پر موجود کسان وزیر اعظم کے اس زبانی وعدے کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
Published: 02 Dec 2020, 12:40 PM IST
مکتسرصاحب کے رنجودھ سنگھ کا کہنا ہے کہ یہ قوانین مکیش امبانی اور گوتم اڈانی جیسے سرمایہ داروں کو فائدہ پہچانے کے لئے بنائے گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت اور یہ کارپوریٹ گھرانے ان سے ان کی زمین لے لیں گے اور وہ پھر کسان سے غریب مزدور بن جائیں گے۔
Published: 02 Dec 2020, 12:40 PM IST
ہریانہ کے مرتھل ضلع سے آئے رویندر سنگھ کا کہنا ہے کہ ’’سب یہ سمجھتے تھے کہ کانگریس حکومت بدعنوان ہے لیکن بی جے پی نے تو تمام حدیں پار کر دی ہیں۔‘‘ سنگھو بارڈر پر ہر عمر کے لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کی نوجوان طالب علم سندیپ کور کا کہنا ہے ’’میں یہاں کچھ دن رہوں گی کیونکہ میری کلاسیں ہیں۔ میرے والدین میری فیس اسی لئے دے پائے ہیں کیونکہ ہمارے پاس زمین تھی اور یہ ہم سے ہماری زمین چھیننا چاہتے ہیں۔ یہ قوانین کسان مخالف ہیں اس لئے طالب علم ہونے کے ناطے مجھے ان قوانین کے خلاف آواز اٹھانی ہے اور ہم یہ آواز اس وقت تک اٹھاتے رہیں گے جب تک وہ ہماری آواز نہ سن لیں‘‘۔
Published: 02 Dec 2020, 12:40 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 02 Dec 2020, 12:40 PM IST