دہلی اور این سی آر میں خطرناک حد تک پھیلی دھوئیں کی دھند میں کسی بھی قسم کے ماسک اور ائیر پیوریفائر ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔ یہی حال رہا تو ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں 30 ہزار لوگوں کی موت ہو سکتی ہے۔ یہ کہنا ہے ایمس کے ڈائریکٹر رندیپ گلیریا کا۔
لوگوں کو کسی قسم کی راحت نہیں مل رہی ہے۔ پوری دہلی اور این سی آر میں آلودگی کی سطح بے حد بڑھ گئی ہے۔ اس سلسلے میں ایمس کے ڈائریکٹر رندیپ گلیریا نے کہا ہے کہ موجودہ حالات کے ضمن میں این 95 ماسک اور ائیر پیوریفائر سانس سے متعلق خطروں میں زیادہ دیر تک اثر انداز ثابت نہیں ہو سکتے ہیں۔
ملک میں امراض سانس کے ماہرین میں شمار کیے جانے والے گلیریا نے کہا کہ ’’ہم سبھی کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ این 95 ماسک اور ائیر پیوریفائر زیادہ دیر تک آپ کی حفاظت نہیں کر سکتے اور نہ ہی پوری طرح سے اثر انداز ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ فضا میں آلودگی کے پیش نظر این 95 ماسک اور ائیر پیوریفائر کی فروخت گزشتہ کچھ دنوں میں کافی بڑھ گئی ہے۔ این 95 ماسک ایک مشین ہے جو ناک اور منھ کو آلودہ ہوا سے محفوظ رکھتا ہے۔
Published: 09 Nov 2017, 1:31 PM IST
آلودگی کے خطرناک سطح تک پہنچنے کے بعد گلیریا نے دہلی این سی آر میں فضائی آلودگی سے متعلق بیماریوں کے سبب تقریباً 30000 اموات کا اشارہ دیا ہے۔ گلیریا نے کہا ’’میں ایک بار پھر متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ موجودہ آلودگی جس سطح پر پہنچ چکی ہے اس میں مریضوں کی موت کا اندیشہ بڑھ گیا ہے۔ خصوصاً ان لوگوں کی موت کا اندیشہ جو سانس سے متعلق مسائل سے نبرد آزما ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ایمس کی او پی ڈی میں سانس کے مریضوں کی تعداد میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے جو قابل تشویش ہے۔
گلیریا نے دہلی کی فضا میں موجود آلودگی سے بچوں پر منڈلانے والے خطرہ کی طرف بھی اشارہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’آلودگی سے بچے اور ضعیف سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ اس آلودگی کے سبب آج کے بچے آئندہ 20 سال میں پھیپھڑے کی سنگین بیماریوں سے متاثر ہو جائیں گے۔‘‘
دہلی کی ہوا 50 سگریٹ روز پینے جیسی ہوئی
واضح رہے کہ دہلی میں ہوا کے معیار کا انڈیکس 451 تک جا پہنچا ہے جب کہ اس کا زیادہ سے زیادہ سطح 500 ہے۔ اس ہوا میں سانس لینے کا مطلب ہے تقریباً 50 سگریٹ روز پینے جتنا دھواں اپنے جسم میں داخل کرنا۔ بیمار لوگوں کے علاوہ صحت مند اشخاص کے لیے بھی یہ ہوا مضر ہے۔ انڈین میڈیکل ایسو سی ایشن (آئی ایم اے) کے مطابق یہ صحت سے متعلق ایمرجنسی کی حالت ہے، کیونکہ شہر عام طور پر گیس چیمبر کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
Published: 09 Nov 2017, 1:31 PM IST
آئی ایم اے کے صدر ڈاکٹر کے کے اگروال نے کہا اس سلسلے میں کہا کہ ’’دھند ایک آلودہ مجموعہ کی طرح ہے جس میں مختلف مضر عناصر جیسے نائیٹروجن آکسائیڈ اور دھول ملے ہوتے ہیں۔ یہ مجموعہ جب سورج کی روشنی سے ملتا ہے تو ایک طرح سے اوزون جیسی سطح بن جاتی ہے۔ یہ بچوں اور بڑوں کے لیے خطرناک حالات ہیں۔ پھیپھڑے کے امراض اور سانس کی پریشانی میں مبتلا لوگ اس صورت حال میں سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر اگروال کا کہنا ہے کہ ’’فضائی آلودگی ہر سال دہلی میں 3000 اموات کے لیے ذمہ دار ہے، یعنی روزانہ 8 اموات۔ دہلی کے ہر تین بچوں میں سے ایک کو پھیپھڑوں میں خون بہنے کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ آئندہ کچھ دنوں تک گھر کے اندر رہنے اور کسرت و ٹہلنے کے لیے باہر نہ نکلنے کی صلاح دی گئی ہے۔‘‘
آئی ایم اے نے دہلی-این سی آر کے سبھی اسکولوں کے لیے صلاح یا ایڈوائزری جاری کرنے کے لیے دہلی کے وزیر اعلیٰ سے پہلے ہی اپیل کی ہے تاکہ ریڈیو، پرنٹ اور سوشل میڈیا جیسے ذرائع سے اسے مشتہر کیا جا سکے۔ 19 نومبر کو ائیر ٹیل دِلّی ہاف میراتھن کو منسوخ کرنے کی بھی گزارش کی گئی ہے۔
دھند کے سبب حادثات بھی بڑھ جاتے ہیں
ڈاکٹر اگروال نے بتایا کہ ’’جب بھی دھند کی سطح میں اضافہ ہوتا ہے، ہوا کا بہاؤ کم ہوتا ہے اور درجہ حرارت میں کمی درج کی جاتی ہے تو کہرا منظر عام پر آتا ہے۔ اس سے باہر دیکھنے میں دقتیں پیش آتی ہیں اور سڑکوں پر حادثات میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ ریلوے اور ائیر لائن کی خدمات میں بھی تاخیر ہونے لگتی ہے۔ جب فضا میں آلودگی کی سطح زیادہ ہوتی ہے تو مضر عناصر کہرے میں ضم ہو جاتے ہیں جس سے باہر اندھیرا چھا جاتا ہے۔ اسی کو اسموگ کا نام دیا جاتا ہے۔‘‘ بدھ کی صبح جمنا ایکسپریس وے پر اسی دھند کی وجہ سے بہت سی گاڑیاں ایک دوسرے سے ٹکرائیں۔
Published: 09 Nov 2017, 1:31 PM IST
ڈاکٹر اگروال نے مزید کہا کہ ’’دھند پھیپھڑے اور قلب دونوں کے لیے بہت خطرناک ہوتی ہیں۔ سلفر ڈائی آکسائیڈ کی زیادتی سے کرونک برانکائسٹ ہو جاتی ہے۔ نائیٹروجن ڈائی آکسائیڈ کی اونچی سطح سے استھما کا مسئلہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ پی ایم 10 فضائی آلودگی میں موجود 2.5 سے 10 مائیکرون سائز کے ذرات سے پھیپھڑے کو نقصان پہنچتا ہے۔ 2.5 مائیکرون سائز سے کم والے ذرات پھیپھڑوں میں داخل ہو کر اندر کی سطح کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ خون میں پہنچنے پر یہ دل کی سریانوں میں سوجن بھی پیدا کر سکتے ہیں۔‘‘
Published: 09 Nov 2017, 1:31 PM IST
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔
Published: 09 Nov 2017, 1:31 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 09 Nov 2017, 1:31 PM IST