شہریت ترمیمی قانون کے خلاف پورے ملک میں احتجاجی مظاہرہ جاری ہیں۔ ملک کا ایک بڑا طبقہ جہاں ان مظاہروں کے ساتھ کھڑا نظر آ رہا ہے وہیں ایک طبقہ وہ بھی ہے جو ان مظاہروں کی تنقید کر رہا ہے اور خود کو حکومت کے ساتھ کھڑا دکھانا چاہتا ہے۔ ملک کے فوجی سربراہ جنرل بپن راوت جو چند روز بعد یعنی 31 دسمبر کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہو رہے ہیں انہوں نے ایک ایسا بیان دیا ہے جس کے بعد ملک میں یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا ہم پاکستان اور چین کے راستے پر چلنے کی تیاری کر رہے ہیں کیونکہ وہاں کی فوج حکومت اور سیاسی معاملات میں سیدھی مداخلت کرتی ہے۔ جنرل بپن راوت نے آج جو بیان دیا ہے ’’وہ لیڈر نہیں ہوتے جو لوگوں کو غلط سمت میں رہنمائی کرتے ہیں۔ جیسا ہم دیکھ رہے ہیں کہ عوام اور یونیورسٹی و کالج طلباء کی قیادت شہروں میں تشدد اور توڑ پھوڑ کر نے کے لئے رہنمائی کر رہی ہے۔ یہ قیادت نہیں ہے۔‘‘
Published: undefined
واضح رہے اس سے پہلے کبھی کسی فوجی سربراہ نے ملک کے اندورنی سیاسی معاملات میں دخل اندازی نہیں کی ہے اور بہت سے لوگوں کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ سابق فوجی سربراہ جنرل وی کے سنگھ جو موجودہ حکومت کے وزیر بھی ہیں انہوں نے بھی اپنے دور میں کبھی ملک کے سیاسی معاملات میں دخل اندازی نہیں کی۔ ان کے اس بیان کی تنقید کرنے والے لوگوں نے کہا ہے کہ ان کا ملک کے سیاسی ماحول پر بیان دینا جمہوریت کے لئے خطرناک ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ کوئی ان کی سیاسی خواہشات پر لگام لگائے۔ ہندوستانی آئین کے مطابق فوج کو منتخب مرکزی حکومت کی رہنمائی میں کام کرنا ہوتا ہے اور اس کو بر سر اقتدار سیاسی جماعت کے نظریہ اور سیاسی فیصلوں کے تئیں غیر جانبدار رہنا ہوتا ہے۔
Published: undefined
میڈیا رپورٹوں کے مطابق جنرل بپن راوت کی طرح حال ہی میں ایسٹرن آرمی کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل انل چوہان نے بھی سیاسی بیان دیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا ’’موجودہ (نریندر مودی) حکومت سخت فیصلہ لینا چاہتی ہے جو لمبے عرصہ سے التوا کے شکار تھے۔ کچھ شمال مشرقی ریاستوں کے تحفظات کے با وجود حکومت شہریت ترمیمی بل پاس کرانے میں کامیاب رہی۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ وہ دن دور نہیں جب بائیں بازو کے شدت پسندوں کے خلاف کارروائی ہونی ہے۔‘‘ جس دن انہوں نے یہ بیان دیا اسی دن ایک فوجی دستہ کو سیول انتظامیہ کی شہریت ترمیمی قانون کے خلا ف ہونے والے مظاہروں میں مدد کرنی تھی۔
Published: undefined
مجلس اتحاد لمسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی نے جنرل بپن راوت کے بیان پر اپنے رد عمل میں ٹوئٹ کیا ’’قیادت کو اپنے دفتر کی حدود کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے۔ قیادت کا مطلب یہ ہے کہ وہ سمجھے عوامی بالادستی کو اور جس ادارہ کی آپ سربراہی کر رہے ہیں اس کی سالمیت کا تحفظ کرنے کو۔‘‘ کانگریس کے سینئر رہنما دگ وجے سنگھ نے اپنے ٹوئٹ میں کہا ’’جنرل صاحب میں آپ کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ وہ قائد نہیں ہوتے جو بھیڑ کی لوٹ مار میں قیادت کرتے ہیں لیکن وہ بھی قائد نہیں ہوتے جو اپنے پیروکاروں کو فرقہ وارانہ فساد میں نسل کشی کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ کیا آپ مجھ سے اتفاق کرتے ہیں جنرل صاحب؟
Published: undefined
جنرل بپن راوت نے اگر یہ بیان برسر اقتدار حکومت کو خوش کرنے کے لئے دیا ہے اور ان کی نظر ریٹائر منٹ کے بعد کچھ سیاسی فائدوں پر ہے یا ان کی نظر نئے چیف آف ڈفینس اسٹاف کے عہدے پر ہے تو اس کے خطرناک نتائج ہوں گے۔ اگر ان کے اس بیان کا ایسا کوئی مقصد نہیں ہے تو بھی یہ ملک کے لئے بہت نقصان دہ ہے کیونکہ فوج کو اگر اقتدار اور سیاسی معاملات کا نشہ لگ گیا تو پھر وہ دن دور نہیں جب ہم پاکستان اور چین جیسے ہو جائیں جہاں تمام طاقت فوج کے پاس ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined