نئی دہلی: دہلی کی ایک عدالت نے پیر کے روز جے این یو کے طالب علم شرجیل امام کے خلاف 2019 میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) کے خلاف مظاہروں کے دوران ان کی طرف سے کی گئی مبینہ اشتعال انگیز تقاریر سے متعلق ایک معاملے میں بغاوت کے تحت الزامات طے کر دیئے ہیں۔
Published: undefined
ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت نے حکم دیا کہ "تعزیرات ہند کی دفعہ 124 (غداری)، 153A (مذہب کی بنیاد پر مختلف گروپوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا)، 153B (قومی یکجہتی کے لیے نقصاندہ دعوے)، 505 (عوامی فساد کو ہوا دینے والے بیانات) اور یو اے پی اے کی دفعہ 13 (غیر قانونی سرگرمیوں کی سزا) کے تحت الزامات عائد کیے جائیں۔‘‘
Published: undefined
استغاثہ کے مطابق شرجیل امام نے مبینہ طور پر 13 دسمبر 2019 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اور 16 دسمبر 2019 کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تقریریں کی تھیں، جن میں انہوں نے آسام اور بقیہ شمال مشرق کو ہندوستان سے ’منقطع‘ کرنے کی دھمکی دی تھی۔
Published: undefined
قبل ازیں اپنے دفاع میں شرجیل امام نے عدالت میں کہا تھا کہ وہ دہشت گرد نہیں ہیں اور ان کے خلاف قائم کیا گیا مقدمہ قانون کے ذریعے قائم کردہ حکومت کے بجائے بادشاہ کے تعزیانہ کی طرح ہے۔ جبکہ استغاثہ نے دعویٰ کیا کہ شرجیل امام کی تقریر کے بعد پرتشدد فسادات بھڑک اٹھے تھے۔ شرجیل امام جنوری 2020 سے عدالتی حراست میں ہیں۔
Published: undefined
دہلی پولیس نے اس معاملے میں شرجیل امام کے خلاف چارج شیٹ داخل کی تھی، جس میں اس نے الزام لگایا تھا کہ اس نے مبینہ طور پر مرکزی حکومت کے خلاف نفرت، توہین آمیز اور بے حسی پر مبنی تقریریں کیں اور لوگوں کو اکسایا، جس کی وجہ سے دسمبر 2019 میں تشدد رونما ہوا تھا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز