10 مئی 1857 مطابق 15 رمضان المبارک 3721ھ کو میرٹھ سے کمپنی بہادر کے خلاف اٹھی پہلی چنگاری کے شعلوں نے دیکھتے ہی دیکھتے ڈھاکہ سے کراچی و سوات کی گھاٹی تا حیدرآباد آباد پورے ہندوستان کو اپنی آغوش میں لے لیا، جس میں بلا لحاظ مذہب و ملت ہر کس و ناکس کفن پہن کر کود پڑا، جسے دیکھ کر تاجران فرنگ کے ہوش و حواس گم ہو گئے۔ ان کی جانوں کے لالے پڑ گئے۔
Published: undefined
روہیل کھنڈ کا تاریخی شہر بدایوں بھی اس سے اچھوتا نہیں رہا، جہاں پہلی ملک گیر جنگ آزادی کے وقت مجسٹریٹ ولیم ایڈورڈس تنہا یورپی افسر تھا۔ قرب و جوار کے حالات دیکھ کر اس کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ وہ لکھتا ہے کہ”یہاں کی پوری آبادی بغاوت پر کمربستہ ہے۔“ اسے اپنے خبر سایوں سے اطلاع ملی کہ 25 مئی 1857ءکو نماز عید الفظر کے بعد بدایوں کے مسلمان ہنگامہ برپا کرنے والے ہیں چنانچہ اس نے شہر کے رؤسا اور مقتدر مسلمانوں کو عین عید کے دن حالات حاضرہ پر تبادلہ خیال کے لیے اپنے بنگلے پر مدعو کیا اور اتنی طویل گفت و شند کی کہ نماز کا وقت بھی نکل گیا، مجسٹر یٹ کی اس عامیانہ حرکت سے صورت حال مزید بگڑ گئی اور اسے اپنے بیوی بچوں کو نینی تال بھیج کر خود بھی ہردوئی بھاگنا پڑا۔
Published: undefined
خان بہادر خاں نے روہیل کھنڈ کے مغل گورنر کی حیثیت سے 17 جون 1857 کو عبد الرحیم خاں کو ناظم اور شیخ فصاحت اللہ کو نائب ناظم بنا کر بدایوں بھیجا ، جنہوں نے نظم و ضبط قائم کرنے کے لیے انتظامیہ ازسرنو تشکیل کی ۔ متعدد اشخاص کو متعین اور بعض سابق کمپنی افسران کو ان کے عہدو ں پر بحال کر دیا ۔ تجربے کار سابق کمپنی تحصیلدار بسولی مولوی رضی اللہ کو تحصیلدار بدایوں کے عہدے پر مامور کیا، لیکن فرنگیوں نے اپنے نمک خوار وطن فروشوں کے ذریعہ انقلابی حکومت کو سکون سے کام کرنے نہیں دیا۔ جن کو کچلنے کے لیے جنرل نیاز محمد خاں نے جی توڑ جگتیں بھڑائیں، لیکن ان کا سدباب نہیں ہوسکا۔آخرکار سقوط بریلی کے بعد بدایوں پر دوبارہ برطانوی عمل داری قائم ہوگئی تو انگریز حکام نے بڑے پیمانے پر داروگیر کا آغاز کردیا۔انگریز وں کے ہاتھوں گرفتار ہونے والوں میں مولوی رضی اللہ بھی شامل تھے ۔جنہیں کلکٹر مسٹر کارمیکل کے سامنے پیش کیا گیا۔ مسٹر کارمیکل کو موصوف نے عربی پڑھائی تھی ۔جب کلکٹر صاحب نے دریافت کیا تو مولوی صاحب نے صریحاً الفاظ میں اپنے جرم کا اقبال کر لیا۔
Published: undefined
چونکہ کلکٹر صاحب کو اپنے استاد محترم سے انسیت تھی ۔اس لیے انہوں نے مقدمہ ملتوی کرکے مولوی صاحب سے کہلایا کہ اگر وہ اپنے جرم سے انکار کردیں توبری کردیے جائیں گے۔مگر مولوی صاحب حق وصداقت کا مجسمہ تھے۔ وہ دوسری پیشی پر بھی اپنی بات پر اٹل رہے۔چنانچہ مجبوراً کلکٹر صاحب کو سزائے موت سنانی پڑی۔پھر جب ان کے حکم کی تعمیل میں مولوی رضی اللہ صاحب کو بندوق سے اڑانے کا وقت آیا تو کلکٹر صاحب اپنے جذبات کوضبط نہیں کرپا ئے ، اشکبار کارمیکل نے اپنے استا د مولوی رضی اللہ سے کہا کہ اگر آپ اب بھی شرکت انقلاب سے انکار کردیی تو آپ کو موت سے بچا لوں گا۔مگر بے باک اور دلیر مولوی صاحب نے بڑی ترش رو ئی سے برملا جواب دیا کہ میں تمہاری وجہ سے اپنا ایمان اور عاقبت خراب کرلوں اور یہ کہتے ہوئے منھ پھیر کر فخر کے ساتھ بندوق کے سامنے کھڑے ہوگئےاور ملک و قوم کی خاطر شہید ہوگئے ۔ مگر آج مولوی رضی اللہ جیسی جانباز شخصیت جنہوں نے ٹیپو سلطان کے مشہور مقولہ” شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے“ کے مماثل جھوٹ بول کر حیات مستعار کی بھیک مانگنے کے بجائے شہادت کو ترجیح دی۔ ان کی قربانی تو کجا ان کے نا م تک سے عوام واقف نہیں ہیں ،جوہمارے لیے باعث ندامت ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر @revanth_anumula
تصویر: پریس ریلیز