انتخابات سے عین قبل مودی حکومت کی طرف سے پیش کئے گئے بجٹ میں کسانوں کو 6 ہزار روپے سالانہ کی امداد دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ رقم ایک کسان خاندان کے حق میں دی جائے گی اور اس پر کچھ شرائط بھی لگائی گئی ہیں۔ ایک شرط یہ ہے کہ مستفیض کسان 2 ہیکٹیئر زمین سے زیادہ کا مالک نہیں ہونا چاہئے۔ مغربی اتر پردیش (مظفرنگر میں) یہ زمین تقریباً 5 ایکڑ یا 27 بیگھہ ہوتی ہے۔ سبز پٹی کے نام سے مشہور مغربی یو پی کے کسان اس امداد کو مضحکہ خیز قرار دے رہے ہیں۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی یہ رقم ایک رشوت کی طرح ہے تاکہ انتخابات کے دوران کسان اپنے مسائل پر بات نہ کریں۔
کیرانہ کے کسان سدھیر بھارتیہ کہتے ہیں، ’’کسان اپنی زمین پر ایک سال میں کھاد پانی اور دیکھ بھال پر تقریباً سوا لاکھ روپے خرچ کر رہا ہے۔ صوبہ کی حکومت صرف بجلی کے ہی 18 ہزار روپے لے رہی ہے اور اسے بچے کی سالانہ فیس ہی کم از کم 10 روپے ادا کرنی پڑتی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’حکومت ایک خاندان کو 17 روپے روزانہ دے کر کسان کا مذاق اڑا رہی ہے۔ کسانوں کو اس کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ ہم چاہتے ہیں فصلوں کے واجب دام ملیں‘‘ سدھیر نے کہا کہ گنے کے تقریباً 10 ہزار کروڑ روپے بقایہ ہیں حکومت وہ ہی لوٹا دے، ہمیں بھیک نہیں چاہئے۔
منصور پور کے گاؤں جیونا میں 18 بیگھہ کی کھیتی کرنے والے اسلام احمد کہتے ہیں، ’’مودی نے 15 لاکھ کا بھی تو وعدہ کیا تھا، اس کا کیا ہوا! اور یہ جو 6 ہزار روپے دینے کی بات کہی ہے اس کو بھی 3 قسطوں میں دیا جائے گا۔ چناؤ سر پر ہیں، اس مرتبہ تو وہ ضرور دیں گے لیکن آگے کی کچھ خبر نہیں۔‘‘ اسلام کی اہلیہ مناظرہ کہتی ہیں کہ ان کے شوہر ایک مہینے میں 500 روپے کی تو بیڑی ہی پی جاتے ہیں۔
Published: undefined
شاملی میں ایک مل پر کسان گنا بقایہ کی ادائیگی کو لے کر ایک ہفتہ سے بھی زیادہ وقت سے احتجاج کر رہے تھے لیکن کوئی سماعت نہ ہونے پر انہیں احتجاج واپس لینا پڑا۔ دھرنے کے دوران ایک کسان جے پال خود کشی کے ارادے سے پانی کی ٹنکی پر چھڑھ گیا تھا۔ اب اس بجٹ کے بعد جے پال نے کہا، ’’یہ مدد اونٹ کے منہ میں زیرے کے مانند ہے۔ حکومت گُڑ دکھا کر ڈلا (کنکر) مارنے کا کام کر رہی ہے۔‘‘
کسانوں کے رہنما بھی مودی حکومت کے اعلان سے خوش نہیں ہیں۔ بھارتیہ کسان یونین کے ترجمان راکیش ٹکیت نے مودی حکومت کے بجٹ پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا، ’’عوام اس بجٹ کا جواب چناؤ میں دیں گے۔ کسان عزت نفس کے ساتھ جیتے ہیں اور محنت کر کے اپنا اور ملک کے باشندگان کا پیٹ بھرتے ہیں۔ کسانوں کو خیرات کی ضرورت نہیں، انہیں ان کے حقوق دئے جانے چاہییں۔‘‘
Published: undefined
ٹکیت نے مزید کہا، ’’ہمیں امید تھی کہ حکومت سوامیناتھن کمیشن کی رپورٹ نافذ کرے گی۔ فصلوں کو سپورٹ قیمتوں پر صد فیصد خریدنے کا التزام ہوگا۔ کسانوں کی خوش کشی روکنے کے لئے مکمل قرض معافی ہوگی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ حکومت نے 500 روپے مہینہ کا اعلان کر کے کسانوں کے زخموں پر نمک پاشی کی ہے۔
Published: undefined
شاملی کے کسان شبھم ملک نے کہا، ’’اعلان تو ہو گیا لیکن بعد میں اس پر شرائط مسلط کر دیں جائیں گی۔ اس سے پہلے حکومت نے قرض معافی کا بھی کافی شور مچایا تھا لیکن اس کے لئے اتنی شراط لگائی گئیں کہ کسان ہکہ بکہ رہ گیا۔‘‘
سدھیر کا کہنا ہے، ’’دراصل، یہ حکومت اعتماد کے قابل ہی نہیں ہے۔ بی جے پی سرمایہ داروں کی پارٹی ہے اور انہیں کے لئے ہمیشہ کام کرتی ہے۔ اور اس منصوبہ کو لاگو کرنے کا وقت بھی دسمبر سے ہے۔ ظاہر سی بات ہے حکومت صرف اور صرف ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے۔‘‘
باغپت کے نوجوان کسان عارف راجپوت نے کہا، ’’کسانوں کو ہمیشہ اپنے ہاتھوں کی طاقت پر یقین رہا ہے اور وہ اپنا مستبقل خود بنانا جانتے ہیں۔ کسانوں کو 6 ہزار روپے کی امداد نہیں چاہئے، یہ کسانوں کے سمان (عزت) کی نہیں بلکہ ان کے اپ مان (بے حرمتی) کی اسکیم ہے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined