بامبے ہائی کورٹ نے برہن ممبئی میونسپل کارپوریشن (بی ایم سی) کو حکم دیا ہے کہ وہ ریتوجا لاٹکے کا استعفیٰ منظور کریں اور ان کے اسمبلی ضمنی انتخاب لڑنے کا راستہ صاف کریں۔ ریتوجا لاٹکے بی ایم سی کی ملازم ہیں اور شیوسینا ادھو بالا صاحب ٹھاکرے نے انھیں اندھیری ایسٹ اسمبلی ضمنی انتخاب کے لیے اپنا امیدوار بنایا ہے۔
Published: undefined
ممبئی کی اندھیری ایسٹ اسمبلی سیٹ پر 3 نومبر کو ضمنی انتخاب ہونا ہے اور اس کے لیے نامزدگی کا عمل 14 اکتوبر سے شروع ہو رہا ہے۔ اس سیٹ سے رمیش لاٹکے رکن اسمبلی تھے اور ان کے انتقال کے بعد یہ سیٹ خالی ہو گئی تھی۔ اس سیٹ کے لیے انتخاب کا اعلان ہونے کے بعد ادھو ٹھاکرے نے رمیش لاٹکے کی بیوی ریتوجا لاٹکے کو امیدوار بنایا۔ لیکن ان کی امیدواری میں پینچ پھنس گیا تھا کیونکہ وہ بی ایم سی کی ملازم تھیں۔ حالانکہ انھوں نے 3 اکتوبر کو اپنا استعفیٰ سونپ دیا تھا، لیکن بی ایم سی نے اسے منظور نہیں کیا تھا، جس کے بعد ریتوجا نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔
Published: undefined
اندھیری ایسٹ سیٹ کا ضمنی انتخاب دراصل دونوں شیوسینا کے درمیان طاقت کا امتحان بن گیا ہے۔ حالانکہ جس طرح سے ادھو ٹھاکرے کی شیوسینا نے کمر کس لی ہے، اس سے اس کی حالت مضبوط دکھائی دے رہی ہے، جب کہ اس سیٹ کے لیے پہلے انتخاب لڑنے کا اعلان کرنے والی بی جے پی اب نئے سرے سے اس بارے میں غور و خوض کر رہی ہے۔
Published: undefined
ایسی خبریں ہیں کہ بی جے پی اب ایکناتھ شندے گروپ والی شیوسینا (بالا صاحب چی شیوسینا) کے ساتھ مل کر انتخاب لڑ سکتی ہے۔ الزام ہے کہ اس دوران شیوسینا ادھو بالا صاحب ٹھاکرے کی امیدوار ریتوجا لاٹکے کو بھی شندے گروپ میں شامل ہونے کا لالچ دیا گیا ہے اور ایک طرح کا دباؤ بنایا گیا۔
Published: undefined
اصول ہے کہ کوئی بھی انتخاب لڑنے کے لیے کسی بھی امیدوار کو منافع والے عہدہ پر نہیں ہونا چاہیے۔ چونکہ ریتوجا لاٹکے بی ایم سی کی ملازم تھیں، تو انھوں نے اپنے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا تھا، لیکن بی ایم سی چیف اقبال سنگھ چہل نے ان کا استعفیٰ قبول نہیں کیا، جس کے بعد انھیں ہائی کورٹ جانا پڑا جہاں سے انھیں راحت ملی ہے۔ اس دوران ریتوجا نے ایک فیس بک پوسٹ میں کہا کہ وہ مضبوطی کے ساتھ ادھو ٹھاکرے کے ساتھ ہیں اور کسی بھی دباؤ میں نہ تو بی جے پی اور نہ ہی شندے گروپ میں شامل ہوں گی۔
Published: undefined
اس پورے معاملے میں بی جے پی میں اندرونی عدم اطمینان پیدا ہو گیا ہے، کیونکہ بی جے پی کے ممبئی صدر آشیش شیلار نے اندھیری ایسٹ سے مرجی پٹیل کی امیدواری کا اعلان کیا تھا۔ لیکن اب نائب وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس دعویٰ کر رہے ہیں کہ پٹیل اس سیٹ سے انتخاب لڑنے کے لیے درست امیدوار نہیں ہیں۔ اس کے بعد شیوسینا کا قلعہ مانی جانے والی اندھیری ایسٹ سیٹ پر نہ صرف بی جے پی کے امکانات کو جھٹکا لگا ہے بلکہ فڈنویس کے بیان کے بعد سے شیلار اور پٹیل دونوں ہی بے عزتی محسوس کر رہے ہیں، جس سے اشارہ ملتا ہے کہ بی جے پی کی مہاراشٹر یونٹ میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔
Published: undefined
اس معاملے میں جو تذبذب پیدا ہوا ہے وہ دراصل حقیقی شیوسینا کا فیصلہ کرنے میں سپریم کورٹ کے ذریعہ کی گئی تاخیر کے سبب پیدا ہوا ہے۔ لیکن اب جب کہ انتخابی کمیشن نے دونوں پارٹیوں کو الگ الگ انتخابی نشان اور نام دے دیا ہے تو مدلل طور پر شندے گروپ کو اس انتخاب میں سیدھے طور پر ادھو ٹھاکرے کی شیوسینا سے مقابلہ کرنا چاہیے، اور اس سے یہ بھی صاف ہو جائے گا کہ اصل شیوسینا کون سی ہے۔
Published: undefined
لیکن کچھ دیگر ایشوز بھی ہیں جن کی بنیاد پر بی جے پی اور شندے گروپ کو ادھو ٹھاکرے شیوسینا سے مقابلے میں اترنا ہوگا۔ ابھی 5 اکتوبر کو دونوں گروپوں نے دسہرا ریلی کی۔ ان ریلیوں سے ایک طرح سے صاف ہو گیا کہ ممبئی شہر اور اس کے ذیلی شہروں کی کھلی حمایت ادھو ٹھاکرے کو حاصل ہے۔ ہزاروں لوگ ادھو کی ریلی میں چل کر شیواجی پارک پہنچے تھے، جب کہ ایکناتھ شندے کو اپنی ریلی کے لیے لوگوں کو مہاراشٹر کے الگ الگ حصوں سے بسوں اور ریل میں بھر کر لانا پڑا تھا۔
Published: undefined
شندے گروپ کا اس بات کے لیے بھی مذاق بنا تھا کہ ان کی ریلی کی حمایت میں کئی بیرون ملکی ہینڈل سے انگریزی میں ٹوئٹ ہو رہے تھے جب کہ ادھو کے لیے مراٹھی میں کیے جا رہے تھے۔ اب جبکہ شندے گروپ کو ان کی پارٹی کا نام بالا صاحب چی شیوسینا کی شکل میں ملا ہے، تو سوشل میڈیا پر پھر مذاقیہ سوال اٹھ رہے ہیں کہ کون سے بالا صاحب کی شیوسینا؟ کیونکہ مہاراشٹر میں کم از کم چار ایسے بالا صاحب ہیں جو سیاسی طور پر سرگرم ہیں۔ ان میں سے ایک تو کانگریس لیڈر اور مہاراشٹر کے سابق وزیر خزانہ بالا صاحب تھوراٹ ہی ہیں۔ ان کی طرف سے مذاقیہ انداز میں شندے گروپ سے پوسٹرس پر ان کا نام استعمال کرنے کی رائلٹی تک مانگ لی گئی ہے۔
Published: undefined
ان سوشل میڈیا پوسٹ وغیرہ کے سامنے آنے کے بعد ادھو ٹھاکرے کے اس بیان کو بھی قوت ملی ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ شندے میں تو اتنی ہمت بھی نہیں ہے کہ وہ اپنے باپ کے نام پر انتخاب لڑ سکیں۔ کچھ ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کے ذریعہ کسی خاص شخص کا نام استعمال کرنے سے پہلے اس کے وارثین کی اجازت لینا ضروری ہوتا ہے۔ اگر اس ایشو کو کورٹ لے جایا گیا تو آنے والے دنوں میں شندے گروپ کو دقتیں ہو سکتی ہیں۔
Published: undefined
ویسے اندھیری ایسٹ ضمنی انتخاب کے لیے کانگریس اور این سی پی دونوں نے آفیشیل طور پر ادھو ٹھاکرے گروپ کی حمایت دینے کا اعلان کیا ہے۔ ویسے بھی اس سیٹ پر مسلم ووٹرس کا ایک بڑا طبقہ اب ادھو ٹھاکرے کی حمایت میں ہے، کیونکہ اپنی مدت کار میں ادھو ٹھاکرے نے انھیں عدم تحفظ کا احساس نہیں ہونے دیا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز