مسلم خواتین کے امور پر گہری نظر رکھنے والی کچھ سماجی کارکنان نے سپریم کورٹ کو ایک کھلا خط لکھا ہے۔ اس خط میں کہا گیا ہے کہ ’’ہندوستان کی سپریم کورٹ نے مسلم پرسنل لاء کے ذریعہ ایک نابالغ لڑکی کی بلوغت کے بعد اس کی شادی کی تقدیس سے متعلق ایک حساس سماجی اور مذہبی مسئلہ پر غور کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس نے پنجاب اینڈ ہریانہ ہائی کورٹ کے فیصلے کو بھی کالعدم قرار دے دیا ہے جس نے 15 سالہ مسلم لڑکی کی شادی کو جائز قرار دیا تھا۔‘‘ خط میں آگے لکھا گیا ہے کہ ’’مسلم کمیونٹی کے حوالے سے بچوں کی شادی پر مختلف عدالتوں کے متضاد فیصلے اس لیے سامنے آئے کہ بچوں کی شادی سے متعلق قانون مسلم کمیونٹی پر اس کے اطلاق کے بارے میں مبہم ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ چائلڈ میرج سے متعلق تمام قوانین، بچوں کی شادی پر پابندی ایکٹ، 2006 یا جنسی جرائم سے بچوں کے تحفظ (POCSO) ایکٹ کو واضح طور پر مسلم کمیونٹی پر نافذ کیا جائے تاکہ مسلم خواتین اور لڑکیاں حقوق کے تحفظ میں بنیادی قوانین کا فائدہ اٹھائیں۔‘‘
Published: undefined
سپریم کورٹ کو لکھے گئے کھلے خط میں تذکرہ کیا گیا ہے کہ بچوں کی شادی پر پابندی کا قانون تمام شہریوں کے لیے ہے، لیکن پھر بھی مسلم کمیونٹی پر واضح یا غیر واضح طور پر نافذ نہیں ہوا ہے۔ خط میں لکھا گیا ہے ’’سپریم کورٹ نے ابھی تک اس پر کوئی مستند فیصلہ نہیں دیا ہے، حالانکہ 2017 کا فیصلہ کہتا ہے کہ بچوں کی شادی پر پابندی ایکٹ 2006 (PCMA) سب پر نافذ ہوتا ہے۔ کچھ ہائی کورٹس (پنجاب اینڈ ہریانہ ہائی کورٹ) ہیں جنہوں نے کہا ہے کہ پرسنل لاء PCMA پر حاوی ہو سکتے ہیں، اور گجرات و کرناٹک جیسی کچھ ہائی کورٹس کا کہنا ہے کہ PCMA پرسنل لاء پر غالب آ سکتا ہے۔‘‘
Published: undefined
خط میں قرآن پاک کا بھی حوالہ پیش کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ’’قرآن کم عمری کی شادی کے حق میں نہیں ہے جبکہ شرعی سمجھ یہ ہے کہ بلوغت یعنی 15 سال شادی کی عمر ہے۔ اسلام میں شادی کا مقصد ایک کامیاب اشتراک پیدا کرنا ہے جو شوہر اور بیوی کے درمیان محبت، سکون اور رحم کو فروغ دے اور معاشرے کی صحت میں معاون ہو۔ اس لیے شادی کی ایک اہم شرط میاں بیوی دونوں کی آزاد اور باخبر رضا مندی ہے۔‘‘ اس میں مزید لکھا گیا ہے کہ ’’قرآن نے شادی کی کوئی خاص عمر نہیں بتائی۔ قرآنی آیت 4:6 میں شادی کا حوالہ دیا گیا ہے جس کا تقاضا ہے کہ یتیموں کا سرپرست ان کی وراثت کا انتظام کرے جب تک کہ وہ شادی کے قابل نہ ہو جائیں اور اپنی جائیداد کا خود انتظام کرنے کے لیے درست فیصلہ نہ کریں۔ نکاح اسلام میں ایک اہم ترین معاہدہ ہے جو ایک فرد اپنی زندگی کے دوران کرتا ہے، اور معاہدہ صرف دو بالغ افراد اس عمر میں کر سکتے ہیں جس کی ملک کے قانون میں وضاحت کی گئی ہے۔‘‘
Published: undefined
کچھ دانشور مسلم خواتین نے سپریم کورٹ کو لکھے گئے کھلے خط میں شادی کی عمر 21 سال کیے جانے کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ اس میں لکھا گیا ہے کہ ’’ہم شادی کی عمر کو 21 سال کرنے کا خیرمقدم کرتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ پی سی ایم اے، 2006 میں ترمیم سے واضح ہو کہ یہ قانون مسلم کمیونٹی پر بھی نافذ ہوتا ہے۔ ورنہ مسلم لڑکی اس قانون یا اس میں ترمیم سے فائدہ اٹھانے کے لیے کھڑی نہیں ہو پائے گی۔‘‘ خط میں ایک سروے کا بھی حوالہ پیش کیا گیا ہے۔ اس میں لکھا گیا ہے ’’بی ایم ایم اے کی طرف سے کی گئی ایک تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ 4710 جواب دہندگان میں سے 75.5 فیصد لڑکیوں کی شادی 18 سال سے زیادہ عمر میں کرنے کے حامی ہیں۔ اسی طرح 88 فیصد چاہتے ہیں کہ لڑکوں کی شادی 21 سال سے اوپر کی جائے۔‘‘ ساتھ ہی بتایا گیا ہے کہ ’’4710 جواب دہندگان میں سے ہم نے پایا کہ 55 فیصد کی شادی 18 سال کی عمر سے پہلے ہوئی تھی اور ان میں سے 15 فیصد کی عمر 15 سال سے کم تھی۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined