کلکتہ: لوک سبھا اسپیکر سو مناتھ چٹرجی کے انتقال کے ساتھ ہی بنگال میں کمیونسٹ سیاست کا ایک اہم باب ختم ہوگیا ۔کیمبرج میں تعلیم کے دوران ہی نوجوان سومناتھ چٹرجی کمیونسٹ نظریات سے وابستہ ہوگئے تھے اورزندگی بھر کارل مارکس کے فلسفے اور نظریات کے اہم پیروکار تھے۔
پارلیمنٹری اور وکیلوں کے فیملی میں پیدا ہونے والے سومنا تھ چٹرجی کو سیاست وارث میں ملی تھی۔ان کے والد نرمل چندرا چٹرجی مشہور وکیل، جج اور پارلیمنٹرین تھے ۔تاہم سومناتھ چٹرجی اور نرمل چندرا چٹرجی کے نظریات اور فکر میں بہت ہی فرق تھا ۔نرمل چندرا چٹرجی آل انڈیا ہندو مہا سبھا کے صدر اور ان کا شمار کانگریس کے باہر بااثر سیاست دانوں میں ہوتا تھا۔ہندو قوم پرستی کے نظریہ پر یقین رکھنے والے نرمل چندرا چٹرجی نے جنوبی بنگال سے 1952میں لوک سبھا کا الیکشن اپنے دوست جن سنگھ کے بانی شیام پرساد مکھرجی کی حمایت سے کامیابی حاصل کی تھی ۔تاہم بعد میں وہ شیاما پرساد مکھرجی سے دو ر ہوگئے اور 1963میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی حمایت سے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔
نرمل چندرا چٹرجی ایک ایسے سیاست داں تھے جن کے تعلقات تمام نظریات اور فکر کے سیاست دانوں سے تھے اور والد کی اسی خوبی نے سومنا تھ چٹرجی کو کمیونسٹ رہنماؤں کے قریب کیا اور اس کی وجہ سے سومنا تھ چٹرجی کو کمیونزازم کو قریب سے دیکھنے اور پڑھنے کا موقع ملا ۔بالآخر 1968 میں سومناتھ چٹرجی باضابطہ طور پرسی پی ایم میں شامل ہوگئے ۔ تاہم اپنے والد کی طرح ان کے تعلقات تمام نظریات اورفکر کے حاملین سے یکساں طور پر تھے۔بی جے پی کے کئی لیڈران ان کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔
سومنا تھ چٹرجی 1929میں آسام کے تیز پور میں پیدا ہوئے تھے۔اسکولی تعلیم کلکتہ میں مکمل کی اور کلکتہ یونیورسٹی میں بھی تعلیم حاصل کی اور گریجویشن کیمبرج سے مکمل کرنے کے بعد قانون کی تعلیم لندن میں مکمل کرنے کے بعد کلکتہ لوٹ گئے اور کلکتہ ہائی کورٹ میں پریکٹس کرنے لگے ۔تمام اہل و فکر میں یکساں مقبول ہونے کی وجہ سے جب 2004میں یوپی اے حکومت نے انہیں لوک سبھا اسپیکر کیلئے امیدوار بنایا تو بی جے پی نے ان کے خلاف کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا ۔سی پی ایم کی 50سالہ تاریخ میں وہ پہلے کمیونسٹ لیڈر ہیں جنہیں لوک سبھا کے اسپیکر کیلئے منتحب کیا گیا تھا ۔
ڈی ایم کے سابق ممبر پارلیمنٹ سیزہیان جو سومنا تھ چٹرجی کے دوستوں میں سے تھے نے ایک جگہ سومناتھ چٹرجی کا ان کے والد نرمل چندرا چٹرجی سے موازنہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سومنا تھ چٹرجی ایک ایسے اسپیکر تھے جو اسپیکر ہونے کے باوجود اپنی بات رکھتے تھے ۔جب کہ عام طور پر اسپیکر اپنی بات رکھنے سے گریز کرتے ہیں ۔فیڈرل ازم، مرکز اور ریاستوں کے تعلقات ، مقامی زبانوں کے حقوق کے معاملے وہ اپنے والد نرمل چندرا چٹرجی کے ہم خیال تھے۔ڈی ایم کے سابق اسپیکر سیز ہیان کا گزشتہ سال انتقال ہوگیا ہے ۔
سومناتھ چٹرجی دس مرتبہ لوک سبھا کیلئے منتخب ہوئے، 1971میں بردوان سے منتحب ہوئے اور 1977اور 1980میں جادو پور لوک سبھا حلقے سے منتخب ہوئے اور 1985سے 2004تک وہ بیر بھوم کے بولپور لوک سبھا حلقے سے منتخب ہوئے تھے۔انہیں صرف ایک مرتبہ 1984میں سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کی موت کے بعد کانگریس کی لہر میں یوتھ کانگریس کی لیڈر ممتا بنرجی کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔تاہم ان کے ممتا بنرجی سے اچھے تعلقات تھے۔
Published: undefined
کئی دہائیوں تک کمیونسٹ نظریات کے سخت پیروکار اور سی پی ایم کے وفادار رہے سومناتھ چٹرجی کے تعلقات اپنی پارٹی سے 2008میں اس وقت خراب ہوگئے جب بایاں محاذ نے نیوکلیائی معاہدے پر یوپی اے حکومت سے حمایت واپس لے لی۔ سی پی ایم چاہتی تھی سومنا تھ چٹرجی اسپیکر کے عہدہ سے استعفیٰ دیدیں۔ مگر ان کا نظریہ تھا کہ اسپیکر منتخب ہونے کے بعد وہ کسی بھی پارٹی کے نمائندہ نہیں ہیں اس لیے ان پر پارٹی کے موقف کو ماننا لازمی نہیں ہے۔ چنانچہ عدم اعتماد کی تحریک سے قبل پرکاش کرات کی قیادت والی سی پی ایم نے سومناتھ چٹرجی کو پارٹی سے معطل کردیا ۔
سومنا تھ چٹرجی کے سیاسی گرو جیوتی باسو تھے ،مگر اس معاملے میں جیوتی باسو نے پارٹی کی حمایت کی ۔اتنی سخت کڑواہٹ کے باوجود سومناتھ چٹرجی عوامی جگہوں پر ہمیشہ پارٹی کے خلاف بولنے سے گریز کیا ۔صرف ایک مرتبہ کہا تھا کہ انہیں جیوتی باسو سے مایوسی ہوئی ہے ۔لیکن وہ کبھی بھی کسی بھی انٹرویو میں جیوتی باسو کے خلاف اس کے علاوہ ایک لفظ نہیں کہا۔ 2009 اور 2011میں سی پی ایم کی شکست کے بعد وہ پارٹی قیادت کے طریقہ کار کی سخت تنقید کی تھی ۔
سومناتھ چٹرجی کی بائیو گرافی کو حال ہی میں کلکتہ کے ایک پبلیشر نے 145Keeping the Faith: Memoirs of a Parliamentarian146 نے شایع کیا ہے ۔2003میں سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی حکومت کے خلاف اپوزیشن کو متحد کرنے اور ہم خیال جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے میں سومنا تھ چٹرجی نے اہم کردار ادا کیا تھا ۔
انہوں نے 14اگست 2003 کو اپنی رہائش گاہ پر تمام اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کو دعوت دی جس میں جیوتی باسو، کرشن سرجیت، ملائم سنگھ یادو اور ایچ دیوگوڑا جیسے سیاست داں جمع ہوئے اور انہوں نے ہلسا مچھلی سے ان لیڈروں کی ضیافت کی اور یہی دعوت یوپی اے کے قیام کی بنیاد بنی اور 2004میں لوک سبھا انتخابات کے بعد بایاں محاذ نے کانگریس کی حمایت کا اعلان کردیا ۔
2009میں سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے باوجود وہ ہمیشہ اہم سیاسی معاملات میں اپنی بات رکھنے سے نہیں چوکتے تھے۔ سی پی ایم سے ان کی معطلی کے بعد بنگال کے کمیونسٹ لیڈروں میں کافی ناراضگی تھی۔ سیتارام یچوری جنرل سیکریٹری منتخب ہونے کے بعد سومناتھ چٹرجی سے ملاقات کی ۔مگر وہ پارٹی میں واپس ہونے کے حق میں نہیں تھے ۔ سی پی ایم بولٹ بیورو کے ممبر اور رکن پارلیمنٹ محمد سلیم نے بتایا کہ ہم نے کئی مرتبہ انہیں پارٹی واپس آنے کی اپیل کی اور سیتارام یچوری بھی اس کیلئے خواہش مند تھے مگر اب وہ سیاست میں دوبارہ واپس ہونے کیلئے تیار نہیں تھے۔ان کا خواب تھا کہ ان کی موت ایک کمیونسٹ کے طور پر ہو اور اس میں وہ بامراد ثابت ہوئے چنانچہ 2009کے بعد سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کی قیادت والی حکومت نے انہیں اہم عہدوں کی پیش کش کی مگر ان تمام پیش کش کو انہوں نے ٹھکرادیا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined