امیر شریعت حضرت مولانا محمد ولی رحمانی نے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے این پی آر کے تعلق سے پارلیمنٹ میں دیے گئے بیان پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ امت شاہ کے بیان پر اس وقت تک بھروسہ نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ شہریت قانون 2003 کے اصول و ضوابط میں تبدیلی نہ کر دی جائے۔
Published: undefined
خیال رہے کہ حال ہی میں امت شاہ نے پارلیمنٹ میں اپنی تقریر کے دوران کہا کہ این پی آر میں کوئی ڈاکومنٹ نہیں مانگا جائے گا، کسی کو جواب دینے پر مجبور نہیں کیا جائے گا اگر کوئی شخص کوئی جواب نہ دینا چاہے تو نہ دے اور کسی بھی شہری کے نام کے آگے ’ڈی‘ یعنی ڈاؤٹ فل (مشکوک) نہیں لکھا جائے گا۔
Published: undefined
امیر شریعت نے کہا کہ امت شاہ اور وزیر اعظم نریندر مودی عوام کے درمیان اپنی باتوں کا اعتبار اور بھروسہ کھو چکے ہیں، ان دونوں کی باتوں کا جھوٹ پورے ملک کے سامنے ہے۔ اس لیے امت شاہ کے اس بیان پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا، خواہ انہوں نے پارلیمنٹ میں یہ بیان دیا ہو، ایک طرف تو وہ یہ بیان دے رہے ہیں کہ کسی کو جواب دینا لازمی نہیں ہے اور دوسری طرف انہیں کی پارٹی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ یہ اعلان کر رہے ہیں کہ جو این پی آ ر کے سوال کا جواب نہیں دیں گے ان پر جرمانہ لگے گا اور ا ن کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ اب کوئی بھی سمجھدا ر آدمی آسانی سے اندازہ لگا سکتا ہے کہ جب امت شاہ کے بیان کی ان کے پارٹی کے ہی وزیر اعلیٰ کے سامنے یہ حالت ہے تواس کا آگے کیا حشر ہونے والا ہے۔
Published: undefined
یہ بات کسی سے چھپی نہیں ہے کہ این پی آر کا عمل سٹیزن شپ ایکٹ 2003 کی بنیاد پر بنائے گئے رولزکے تحت ہونا ہے ، جس میں ‘‘ڈی ’’ یعنی ڈاؤٹ فل بنانے کی بات او ر ویری فکیشن کی بات صاف طو پر لکھی ہے ۔اگر امت شاہ اپنے بیان میں واقعی سچے ہیں تو سٹیزن شپ ایکٹ 2003کے رولز ۳،۴،۵؍ کو بدل دیں۔ساتھ ہی تمام غیر ضروری اور قابل اعتراض باتوں کو ختم کر کے باضابطہ این پی آ ر کا نیا فارمیٹ جاری کیا جائے ۔ا ور جب تک یہ سب نہیں ہو تا سب بیان بازیاں زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں ہیں ۔لوگوں کو ان بیانوں سے مغالطہ میں آکر اپنی تحریک کمزور نہیں کرنی چاہئے بلکہ اور زیادہ مضبوطی اور توانائی کے ساتھ تحریک کو اس وقت تک جاری رکھنا چاہئے جب تک حکومت کی معتبر قانونی تحریر میں ان سب چیزوں کے خاتمے کا اعلان نہ ہو جائے ۔
Published: undefined
حضرت مولانا محمد ولی رحمانی نے کہا کہ مسلم اور غیر مسلم کی تفریق بی جے پی اور آر ایس ایس کی پالیسی ہے ، یہی پالیسی سی اے اے میں کام کر رہی ہے، اور اسی پالیسی کے پیش نظر پاکستا ن، بنگلہ دیش اور افغانستان سے ویزا کے ساتھ آنے اور زیادہ ٹھہر جانے والوںسے لی جانے والی رقم کے اسٹریکچرمیں بھی فرق رکھا گیا ہے، مسلمانوں سے تین سو، چار سو اور پانچ سو امریکی ڈالر لیے جا رہے ہیں اور غیر مسلموں سے ایک سو، دو سو اور پانچ سوہندوستانی روپئے لیے جا رہے ہیں، یہ مذہبی تفریق ہے، جو آئین ہند کے لحاظ سے غیر قانونی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز