لوک سبھا انتخابات سے پہلے جموں و کشمیر میں بی جے پی کے خلاف پی ڈی پی، نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے ایک ساتھ آنے سے ملک کی سیاست میں ہلچل تیز ہو گئی ہے۔ ملک کی سب سے زیادہ آبادی والی اس ریاست میں اب تک ایک دوسرے کے مخالف عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی اور کانگریس کے ایک ساتھ آنے کی دستک نے ہی بی جے پی کو اتنا پریشان کر دیا کہ گورنر کو آناً فاناً میں اسمبلی تحلیل کرنے کا فیصلہ لینا پڑا۔ گورنر کے اس فیصلے سے فی الحال وہاں پر اپوزیشن اتحاد کی حکومت کا راستہ رک گیا ہے اور اب انتخاب سے ہی صورت حال صاف ہو سکے گی۔
لیکن مرکز کی مودی حکومت اور بی جے پی کی اس سیاست نے بھلے ہی جموں و کشمیر میں فی الحال اپوزیشن پارٹیوں کے ذریعہ حکومت بنانے کی کوششوں پر پانی پھیر دیا ہو، لیکن آنے والے دنوں میں لوک سبھا اور اسمبلی انتخاب میں ان کا اتحاد بی جے پی کے لیے بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔ بی جے پی کے لیے یہ چیلنج صرف جموں و کشمیر تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ آنے والے دنوں میں پی ایم مودی کو مضبوطی سے گھیرنے کے لیے اپوزیشن پورے ملک میں متحد ہو رہا ہے۔ بی جے پی اور مودی حکومت کے خلاف اپوزیشن پورے ملک میں ’مہاگٹھ بندھن‘ بنانے میں مصروف ہو گیا ہے۔
دراصل اسی سال کرناٹک اسمبلی انتخاب میں بی جے پی کے سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرنے کے باوجود کانگریس اور جے ڈی ایس نے اتحاد کر کے حکومت بنا لیا اور اسے مضبوطی کے ساتھ چلا کر پورے ملک میں اپوزیشن اتحاد کا پیغام دیا ہے۔ اس کے بعد کرناٹک میں ہوئے ضمنی انتخاب میں بھی کانگریس-جے ڈی ایس اتحاد نے بی جے پی کو بڑا جھٹکا دیتے ہوئے 5 میں سے 4 سیٹوں پر قبضہ کیا۔ کرناٹک میں بی جے پی اور جے ڈی ایس اتحاد کے کامیاب ہونے سے پورے ملک میں اپوزیشن اتحاد کے نظریہ کو مضبوطی ملی ہے۔
ملک کی دیگر ریاستوں کی حالت کی بات کریں تو تمل ناڈو میں ڈی ایم کے اور کانگریس کا اتحاد تقریباً طے ہے۔ اس اتحاد میں لیفٹ پارٹیوں کا شامل ہونا بھی تقریباً طے مانا جا رہا ہے۔ تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں ٹی ڈی پی لیڈر چندرا بابو نائیڈو کانگریس کے ساتھ اتحاد کر چکے ہیں۔ مہاراشٹر میں این سی پی اور کانگریس کے اتحاد میں انتخاب لڑنے کا راستہ بالکل صاف ہے۔ بہار میں آر جے ڈی اور کانگریس کا اتحاد مضبوطی کے ساتھ قائم ہے اور آنے والے دنوں میں اس میں این ڈی اے چھوڑنے والی پارٹیوں کے شامل ہونے کا پورا امکان ہے۔ جھارکھنڈ میں جے ایم ایم اور بابو لال مرانڈی کی جے وی ایم کے ساتھ کانگریس کا اتحاد ہے۔
Published: 23 Nov 2018, 9:09 AM IST
دوسری طرف مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ میں بی جے پی اور کانگریس کے درمیان سیدھی لڑائی ہے اور دوسری بڑی پارٹی وہاں ہے بھی نہیں۔ اتحاد کا معاملہ اگر تھوڑا بہت کہیں پھنس رہا ہے تو وہ یو پی اور مغربی بنگال میں پھنس رہا ہے۔ لیکن ان دونوں ریاستوں میں بھی اپوزیشن پارٹیوں کے ذریعہ مہاگٹھ بندھن بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔ ٹی ڈی پی لیڈر اور آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ چندرا بابو نائیڈو اتحاد کا نقشہ کھینچنے کے لیے لگاتار ان ریاستوں کی پارٹیوں کے سرکردہ لیڈران کے رابطے میں ہیں۔
علاوہ ازیں دہلی میں اروند کیجریوال، اڈیشہ میں نوین پٹنایک ابھی کسی اتحاد کا حصہ نہیں ہے، لیکن یہ مانا جا رہا ہے کہ کیجریوال بی جے پی کے خلاف مہاگٹھ بندھن میں کبھی بھی ایڈجسٹ ہ و سکتے ہیں۔ اڈیشہ میں بھی بی جے پی کے لگاتار بڑھتے اثر کو دیکھتے ہوئے نوین پٹانیک کے مودی مخالف کیمپ میں آنے کا پورا امکان ہے۔ ایسے ماحول میں آنے والے دنوں میں ممکن ہے کہ بی جے پی اور پی ایم مودی کو روکنے کے لیے بی جے پی مخالف اتحاد کو نقشہ دینے کے لیے کئی بی جے پی مخالف نظریہ والی پارٹیاں بھی ایک ساتھ ملنے کے لیے تیار ہو جائیں۔
Published: 23 Nov 2018, 9:09 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 23 Nov 2018, 9:09 AM IST
تصویر: پریس ریلیز