ہریانہ کے سابق ڈی جی پی وکاس نارائن رائے نے جہانگیر پوری تشدد اور ملک کے موجودہ حالات سے متعلق ’قومی آواز‘ کے نمائندہ وشو دیپک سے تفصیلی گفتگو کی۔ یہاں پیش کیے جا رہے ہیں اس گفتگو کے اہم اقتباسات...
Published: undefined
مودی حکومت نے جو کریمنل آئیڈنٹفکیشن بل پاس کیا ہے اس سے اپوزیشن خیمہ میں زبردست ناراضگی ہے، جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ اس سے جرائم پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ آپ کا کیا کہنا ہے؟
میں تو اس کی مخالفت کرتا ہوں۔ حکومت نے بل کے دو اہداف بتائے ہیں، پہلا یہ کہ اس سے جرم کو پہلے ہی روک سکیں گے، یعنی پریونشن۔ اور دوسرا یہ کہ جرائم پیشوں کو سزا دلانے میں مدد ملے گی، یعنی کنویکشن کی شرح اچھی ہوگی۔ بل کو ٹھیک سے دیکھیں تو سمجھ میں آئے گا کہ اس میں پریونشن آف کرائم کا کوئی انتظام تو ہے ہی نہیں۔ آئیڈنٹفکیشن تو جرم کے بعد ہوتا ہے۔ اس کے بعد ہی ساری شناخت، مثلاً انگوٹھے کی چھاپ وغیرہ اکٹھا کی جاتی ہے۔ اب رہی بات تحقیقات کی، تو اس میں تھوڑی مدد مل سکتی ہے، لیکن کنویکشن یعنی سزا دلانے میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔ کنویکشن اس بنیاد پر نہیں ہوتا کہ آپ کے پاس ڈاٹا ہے۔ کنویکشن تو اس بنیاد پر ہوتا ہے کہ آپ اس ڈاٹا کو جرائم پیشہ کے ریکارڈ سے ملان کرا پاتے ہیں یا نہیں۔ یہ عمل اس بل کے آنے سے پہلے بھی اختیار کیا جاتا تھا۔
کہا جا رہا ہے کہ اس بل کے ذریعہ پولیس کو خصوصی اختیارات دیئے گئے ہیں، اس کا غلط استعمال ہونے کا اندیشہ زیادہ ہے۔ ہندوستانی ریاست کیا پولیس اسٹیٹ میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے؟
فکر بالکل جائز ہے۔ غلط استعمال ہوگا کیونکہ آپ اس قانون کے ذریعہ کر کیا رہے ہیں۔ آپ اتھارٹی کو طاقتور بنا رہے ہیں۔ یہ بل جو کہ پاس ہو چکا ہے اور اب قانون بن جائے گا، اس کے ذریعہ ملک کے عوام کو، شہریوں کو طاقتور نہیں بنایا جا رہا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ یہ صرف اسی ایکٹ کے ساتھ نہیں ہو رہا ہے بلکہ یہ ہر لاء کا مسئلہ ہے۔ یہاں تک کہ جو بھی اختیارات پر مبنی قوانین بنائے گئے وہ سبھی اتھارٹی کو مضبوط کرنے والے بنائے گئے ہیں۔ مان لیجیے میں اتھارٹی ہوں۔ اس ایکٹ کی بنیاد پر یہ میری مرضی پر منحصر کرے گا کہ میں آپ کو کب پکڑ سکتا ہوں۔ اقتدار میرے ہاتھ میں ہوگا۔ جہاں تک بات ہندوستانی ریاست کی ہے، تو وہ نصف پولیس اسٹیٹ تو پہلے سے ہی تھی، اب مکمل طور پر پولیس اسٹیٹ بن جائے گی۔
مودی حکومت جس طرح سے ملک کو ہندو راشٹر بنانے پر آمادہ ہے اس سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اس کا غلط استعمال خاص طور سے اقلیتوں کے خلاف کیا جائے گا۔
جب بھی اتھارٹی کو طاقت دی جاتی ہے تو اس کا غلط استعمال ہوتا ہی ہے۔ اب غلط استعمال کا کیا آبجیکٹ ہوگا یہ حکومت طے کرے گی۔ موجودہ حکومت ہے تو یہ اقلیتوں کے خلاف غلط استعمال کر سکتی ہے۔ دوسری حکومت ہوگی تو کسی اور شکل میں غلط استعمال کرے گی۔ بات یہ ہے کہ اقتدار کے غلط استعمال کو مزید بڑھانے کے لیے پولیس کو مزید ایک ہتھیار مل گیا ہے۔
اگر اس حکومت کے طریقہ کار کی بات کریں تو قانون بنانے سے پہلے اسٹیک ہولڈرس سے بات نہیں کرتی۔ حال فی الحال زرعی قوانین کے ضمن میں ہم نے ایسا دیکھا ہے۔
یہ افسوسناک، لیکن سچ ہے کہ یہ حکومت قانون بنانے سے پہلے کوئی رائے مشورہ نہیں کرتی۔ اسٹیک ہولڈرس سے کوئی بات نہیں کی جاتی ہے۔ صلاح و مشورہ کا کوئی میکانزم نہیں ہے۔ یہ حکومت پہلے طے کر لیتی ہے پھر بعد میں ظاہر کرتی ہے۔ دکھانے کے لیے کہیں کوئی اشتہار دے دیا جاتا ہے کہ آپ کے نظریات مدعو ہیں، لیکن اس کو لے کر سنجیدگی نہیں ہوگی۔ حالانکہ پہلے بھی ایسا ہوتا تھا کہ اکثریت کے دَم پر حکومتیں اپنی طاقت کو بڑھانے کے لیے قانون بنا دیتی ہیں۔ لیکن اس حکومت نے اس روش کو انسٹی ٹیوشنلائز کر دیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جمہوریت میں شہریوں کو طاقتور نہیں بنایا جا رہا ہے، جب کہ ہونا یہ چاہیے کہ کوئی بھی قانون عوام کو دھیان میں رکھ کر بنایا جانا چاہیے، یہ حکومت اس سمت میں بالکل کام نہیں کر رہی ہے۔
دہلی سے لے کر کھرگون تک آج پولیس کی موجودگی میں اشتعال انگیز یاترائیں نکالی جا رہی ہیں۔ فسادات بھی ہو رہے ہیں۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ اس میں پولیس بھی شامل ہے؟
پولیس پوری طرح شامل ہے۔ پولیس پہلے ایسے حالات پیدا ہونے دیتی ہے۔ جو کشیدگی پھیلانے والے لوگ ہیں، ان کو چھوٹ دی جاتی ہے۔ پھر جب تناؤ پھیل جاتا ہے تو پولیس ایکشن میں آتی ہے۔ صاف ہے کہ پولیس اس میں شامل ہوتی ہے۔ پولیس کا کام صرف جرم روکنا نہیں ہے۔ پریونشن بھی پولیس کی بہت بڑی ڈیوٹی ہے لیکن اس پر پولیس کا دھیان بالکل نہیں ہوتا۔ جب پانی سر سے اوپر نکل جاتا ہے تب پولیس جاگتی ہے۔ اس کے پہلے سوتی رہتی ہے۔
دہلی پولیس وزارت داخلہ کے ماتحت آتی ہے۔ وزارت داخلہ امت شاہ کے ماتحت ہے۔ بطور وزیر داخلہ امت شاہ کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟
دہلی فسادات میں بھی اور جہانگیر پوری میں ہوئے فسادات میں بھی وزیر داخلہ امت شاہ بری طرح فیل ہوئے ہیں، اس میں کوئی دو رائے نہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جو مطالبہ کر رہے ہیں کہ دہلی میں یوگی جیسا وزیر اعلیٰ چاہیے۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ نظامِ قانون کے معاملے میں یوگی بہت کامیاب رہے ہیں۔ وہ کامیابی اس معنی میں دکھائی دیتی ہے کہ اس سے پہلے جو اکھلیش یادو کی حکومت تھی وہ مزید خراب تھی۔ اس حکومت میں نظامِ قانون کا حال مزید برا تھا۔ اکھلیش راج میں مافیا کو بھی تحفظ حاصل تھا۔ اگر آپ ایک خاص ذات یا طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں تو کارروائی نہیں ہوتی تھی۔
یوگی راج میں بزنس کلاس کو تھوڑی راحت نظر آ رہی ہے۔ بلڈوزر سے کوڑا کرکٹ ہٹا سکتے ہیں۔ اس میں غریب سب سے زیادہ پستا ہے۔ اس لیے میرے حساب سے امت شاہ کا متبادل یوگی نہیں، لیکن امت شاہ بھی اس محاذ پر پوری طرح سے فیل ہیں کیونکہ ان کی نیت خراب ہے۔ اب کہتے ہیں کہ ہندو خطرے میں ہے۔ ہندو کہاں سے خطرے میں آ جائے گا۔ سوال ہے کہ ایسا کیا کر دیا مودی حکومت نے کہ ہندو خطرے میں آ گیا۔ یہ مودی حکومت کو بتانا چاہیے۔ پہلے تو ہندو خطرے میں نہیں تھا۔ یہ جو سب ہو رہا ہے، دہلی سے لے کر کھرگون اور بہار تک سب بائی ڈیزائن ہو رہا ہے۔ ایک منصوبہ کے تحت ہو رہا ہے۔ ایک خاص سیاسی ہدف حاصل کرنے کے لیے یہ سب پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے اور کچھ نہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined