شہریت ترمیمی قانون پر پاکستان کا زبردست سایا نظر آ رہا ہے ، پہلے اتر پردیش میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کو اتر پردیش کے ایک سینئر پولیس اہلکار نے پاکستان بھیجنے کی بات کہی اور اب حال ہی میں کیرالہ کے گورنر بنائے گئے عارف محمد خان پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جو شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت کر رہے ہیں وہ پاکستانی ایجنٹ ہیں۔ ان کے اس بیان کی علی گڑھ سوسائیٹی آف ہسٹری اینڈسایکولوجی نے مزمت کی ہے ۔
Published: undefined
واضح رہے عارف محمد خان نے معروف مورخ عرفان حبیب پر الزام لگایا کہ انہوں نے ان کے ساتھ اس وقت بدسلوکی کی جب وہ کیرالہ کے کننور میں منعقد انڈین ہسٹری کانگریس کے 80ویں اجلاس سے خطاب کر رہے تھے ۔ علی گڑھ سوسائیٹی آف ہسٹری اینڈسایکولوجی نے ان کے اس بیان کی بھی سخت الفاظ میں مزمت کی ہے۔ اتوار کو جاری کئے گئے اپنے بیان میں علی گڑھ سوسائیٹی آف ہسٹری اینڈسایکولوجی نے جمہوری آواز کو دبانے کی کوشش کی مزمت کی ا ور کہا کہ ہر شہری کو اپنی رائے رکھنے اور مظاہرہ کرنے کا حق ہے اور اگر اس کو روکنے کی کوشش کی گئی تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہو گی۔
Published: undefined
انڈین ہسٹری کانگریس کا80واں اجلاس 28 دسمبر کو شروع ہوا تھا جس کا افتتاح گورنر عارف محمد خان نے کیا تھا اور اس اجلاس میں ملک کے معروف مورخ شرکت کر رہے تھے ۔پروفیسر امیا کمار باگچی کے صدارتی خطبہ کےبعد گورنر عارف محمد خان کو اپنا خطاب کر نا تھا اور انہوں نے جیسے ہی اپنے خطاب میں شہریت ترمیمی قانون کا دفاع شروع کیا اور کہا کہ جو اس قانون سے اتفاق نہیں کرتے وہ دراصل پاکستانی ایجنٹ ہیں اور ان لوگوں میں کبھی یہ جرات نہیں ہوئی کہ وہ گاندھی خاندان ، جواہر لال نہرو اور اندرا گاندھی کی غلط پالیسیوں کی مخالفت کرتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جو بھی شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت کر رہے ہیں وہ ملک دشمن ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات کیرالہ کے لوگ نہیں سمجھ سکتے کیونکہ انہوں نے تقسیم وطن کو کبھی محسوس نہیں کیا ہے۔
Published: undefined
عارف محمد خان کا یہ بیان سننے کے بعد وہاں موجود جے این یو کی دو طالبات سی اے اے مخالف پلےکارڈ لے کر خاموش کھڑی ہو گئیں اور ان لڑکیوں کے ساتھ کچھ پروفیسر حضرات بھی کھڑے ہو گئے ۔ انہوں نے گورنر سے ایسے بیانات سے پرہیز کرنے کے لئے کہا ۔ اس کے بعد مخالفت کرنے والوں کو پولیس نے گھیر لیا لیکن راجیہ سبھا کے رکن کی بر وقت مداخلت کی وجہ سے حالات قابو میں رہے۔جے این یو، اے ایم یو اور دہلی یونیورسٹی کے کئی ریسرچ اسکالروں کو حراست میں لے لیا گیا تھا لیکن جلد ہی ان کو رہا کر دیا گیا تھا۔
Published: undefined
واضح رہے جب یہ احتجاج ہو رہا تھا تو اسٹیج پر موجود مورخ عرفان حبیب تھے وہ کننور یونیورسٹی کے پروفیسر گوپیناتھ رویندرن کی جانب یہ درخواست کرنے کے لئے بڑھے کہ وہ ان کو روکیں جس پر گورنر نے الزام لگایا کہ عرفان حبیب نے ان کو روکنے کی کوشش کی اور ان کے ساتھ بدسلوکی کی ۔ عارف محمد خان کی جانب سے پورے معاملہ پر ٹویٹ بھی کئے گئے۔ علی گڑھ سوسائیٹی آف ہسٹری اینڈسایکولوجی کی جانب سے مزمتی بیان سوسائیٹی کے صدرسید علی ندیم، نائب صدر جابر رضا ، سیکریٹری مانویندراکمار پنڈھیراورجوائنٹ سیکریٹری پروفیسر فرحت حسین نے جاری کیا ہے۔
Published: undefined
عارف محمد خان راجیو گاندھی کی کابینہ میں وزیر تھے لیکن شاہ بانو معاملہ پر ان کے اختلافات ہو گئے تھے جب ہی سے وہ کانگریس کے زبردست مخالف ہیں اور ساتھ میں وہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے بھی سخت مخالفین میں سے ہیں اور بی جے پی سے ان کی نزدیکیاں کسی سے چھپی نہیں ہیں اور سیاسی گلیاروں میں یہ بات عام ہے کہ گورنر کا عہدہ بی جے پی سے نزدیکیوں کا ہی انعام ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز