امریکہ میں ہندوستانی طلباء کی مسلسل اموات کا معاملہ سرخیوں میں ہے۔ اس کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ دنوں وائٹ ہاؤس کو اس پر بیان دینا پڑا تھا۔ ایسے میں امریکہ کے الینوئس یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہندوستانی نژاد طالب علم اکول دھون کی 20 جنوری کو ہوئی موت کے معاملے میں ایک ایسا انکشاف ہوا ہے جس نے امریکہ میں ہندوستانی طلبہ کے ساتھ ہو رہے بھید بھاؤ کو اجاگر کر دیا ہے۔
Published: undefined
اکول دھون کی موت کے تقریباً ایک ماہ بعد ’شیمپین کاؤنٹی کورونر آفس‘ نے کیمپس پولیس ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ کے حوالے سے کہا ہے کہ ’’دھون کی موت 20 جنوری کو ہائپو تھرمیا سے ہوئی تھی۔‘‘ رپورٹ کے مطابق ’’دھون اپنے دوستوں کے ساتھ رات تقریبا 11.30 بجے کیمپس کے قریب واقع ’کینوپی کلب‘ گیا لیکن کلب کے عملے نے اکول دھون کو کلب کے اندر داخلہ دینے سے انکار کر دیا۔ سرویلانس فوٹیج سے معلوم ہوا کہ اکول نے کئی بار کلب میں داخل ہونے کی کوشش کی لیکن عملے نے اسے اندر جانے کی اجازت نہیں دی۔ اس رات وہاں کا درجہ حرارت -2.7 ڈگری تھا۔‘‘
Published: undefined
’دی کنساس سٹی اسٹار‘ کی رپورٹ کے مطابق دھون کے دوست رات بھر اسے فون کرتے رہے لیکن اکول نے فون نہیں اٹھایا۔ اس کے بعد اکول کے ایک دوست نے کیمپس پولیس سے رابطہ کیا لیکن کئی کوششوں کے باوجود اکول کے بارے میں کوئی معلومات نہیں مل سکی۔ اگلی صبح اکول ایک عمارت کے پیچھے پڑا ہوا دکھائی دیا اور اسے موقع پر ہی مردہ قرار دے دیا گیا۔ بعد میں پولیس نے اکول کی موت کی وجہ حد سے زیادہ شراب نوشی اور خون کو منجمد کر دینے والی سردی کو قرار دیا۔
Published: undefined
اکول دھون کی موت کے حوالے سے اس کے اہل خانہ نے پولیس کو ایک کھلا خط لکھا تھا اور اس کی موت پر سوالات اٹھائے تھے۔ ’دی نیوز گزٹ‘ میں شائع اپنے کھلے خط میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ مسلسل یہ پوچھتے رہے ہیں کہ اکول کے لاپتہ ہونے کے 10 گھنٹے بعد اس کی لاش کیوں ملی؟ اگر اسے بروقت تلاش کر لیا جاتا تو اسے بچایا جا سکتا تھا۔ جس جگہ سے وہ لاپتہ ہوا تھا اور جہاں اس کی لاش ملی تھی اس کے درمیان کا فاصلہ صرف 200 فٹ کا تھا۔ واضح رہے کہ اکول دھون کے والدین کیلیفورنیا کے سان فرانسسکو بے ایریا میں رہتے ہیں۔ جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے اطلاع ملتے ہی فوری کارروائی کی تھی لیکن اکول کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ پولیس نے ان کے بیٹے کو کبھی سنجیدگی سے لیا ہی نہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined