نئی دہلی: کووڈ-19‘ وبا سے بچنے کے لئے لاک ڈاؤن کھلنے کے بعد کثیر تعداد میں لوگ عوامی ٹرانسپورٹ ذرائع کو چھوڑ کر نجی گاڑیوں کو اپنائیں گے جس سے شہروں میں ٹریفک جام اور آلودگی کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔
Published: undefined
ماحولیات کے میدان میں کام کرنے والے انسٹی ٹیوٹ ’ٹیری‘ نے ایک سروے رپورٹ میں کہا ہے کہ میٹرو میں سفر کرنے والے 36 فیصدی اور بسوں میں سفر کرنے والے 41 فیصدی افراد نے آمدورفت کے دوسرے ذرائع کی طرف رخ کرنے کی بات کہی ہے۔ ان میں بیشتر نجی کار یا موٹر سائیکل کو متبادل کے طور پر استعمال کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ جبکہ کچھ لوگ آٹو رکشا یا ٹیکسی میں ہی سفر کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ ممبئی لوکل ٹرینوں میں سفر کرنے والوں نے بھی دوسرے ذرائع اختیار کرنے کی بات کہی ہے۔
Published: undefined
میٹرو سے دفتر جانے والوں میں 64 فیصد افراد نے کہا کہ وہ لاک ڈاؤن کے بعد بھی میٹرو میں ہی سفر کریں گے۔ باقی 36 فیصدی میں 17 فیصد لوگوں نے کہا ہے کہ وہ اب اپنی کار سے دفتر جائیں گے۔ چھ فیصدی ٹیکسی کا استعمال کریں گے۔ آٹو رکشا، کمپنی کی گاڑی، موٹر سائیکل یا شیئر والی کیب کے استعمال کی بات تین فیصد شرکاء نے کہی ہے جبکہ دو فیصد کار-پول کا استعمال کر سکتے ہیں۔
Published: undefined
اسی طرح بس سے اپنے دفتر تک جانے والوں میں 59 فیصد نے کہا ہے کہ وہ آئندہ بھی بس کا استعمال کریں گے۔ دس فیصد نجی کار، آٹھ فیصد ٹیکسی، پانچ-پانچ فیصد نے آٹو رکشا، میٹرو اور سائیکل و تین تین فیصد کار-پول اور کمپنی کی گاڑیوں کو متبادل کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ تین فیصد بس مسافروں نے اب پیدل ہی جانا طے کیا ہے۔
Published: undefined
ملک کے 51 شہروں میں سروے کی بنیاد پر یہ رپورٹ تیار کی گئی ہے۔اس میں 72 فیصدی شرکاء ایک کروڑ سے بھی زیادہ آبادی والے مہانگروں سے اور 17 فیصد 50 لاکھ سے ایک کروڑ کی آبادی والے شہروں کے ہیں۔
Published: undefined
رپورٹ کے مطابق،دہلی -این سی آر میں نقل وحرکت کے ذرائع میں میٹرو کی حصہ داری میں 13 فیصد کی کمی درج کی جائے گی اور یہ گھٹ کر 30 فیصد سے کم رہ جائے گی۔ خاتون مسافروں کے معاملے میں میٹرو کی حصہ داری 16 فیصد کم ہونے کا خدشہ ہے۔ نجی کاروں کی حصہ داری میں 10 فیصد کا اضافہ ہوگا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined