لکھنؤ: مثل مشہور ہے نیا ملا پیاز زیادہ کھاتا ہے،وہی حال یوگی سرکار کے واحد مسلم منتری محسن رضا اور ان کے حواریوں کا ہے۔ بی جے پی میں جو مسلمان ہیں ان کا یہ عالم ہے کہ وہ روایتی بھاجپائیوں سے زیادہ وفادار بننے کی کوشش میں ہیں۔ بقل نواب اور محسن رضا ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی مہم میں مصروف ہیں۔
اتر پردیش کے مدارس میں طلبا کے ڈریس کوڈ کے مسئلے پر محسن رضا نے اپنی جانب سے جو بیان دیا وہ جھوٹا ثابت ہوا۔دو دن سے محسن رضا بھاجپائی ٹی وی چینلوں کی زینت بنے رہے کہ اب مدارس میں کرتے اور پائیجامہ کی جگہ شرٹ اور پینٹ پہنا کریں گے۔اس بیان پر مدارس کے زیادہ تر ذمہ داروں نے اعتراض کیا اور کہا کہ محسن رضا کو یہ نئی بیان بازی سے کیا ملنے والا ہے ، سوائے اس کے وہ اپنے آقاؤں کو خوش کریں۔
خود محسن رضا کے اس بیان کو شام ہوتے ہی ان کے بڑے وزیر برائے اقلیتی امور لکشمی نارائین چودھری نے صاف انکار کردیا کہ یوگی سرکار کے زیر غور نہ کوئی ایسا منصوبہ تھا اور نہ ہی ہے،بلکہ اس سلسلے میں کوئی غور و فکر بھی کبھی نہیں کیاگیا ، انہوں نے کہا کہ محسن رضا کا یہ اپنا ذاتی معاملہ ہو سکتا ہے۔
Published: undefined
اس سے قبل بھی محسن رضا اپنی تیزی اور چالاکی کی وجہ سے یوگی سرکار کی کرکری کرا چکے ہیں جب انہوں نے یو پی حج ہاؤس کی عمارت کو بھگوا رنگ سے رنگوا دیا تھا ، جس پر وزیر اعلی یوگی نے ان کو بلا کر ڈانٹا اور فی الفور عمارت کا رنگ بدلنے کا حکم دیا، یاد رہے محسن رضا ہر منگل کو پابندی سے مندر جاتے ہیں اور ان کے ساتھ کئی بار ان کے دو بچے بھی دیکھے گئے ہیں۔ محسن رضا مندر میں جاکر نہ صرف گھنٹہ ہلاتے ہیں بلکہ ہنومان جی کی مورتی کے سامنے ہاتھ جوڑ کر ان کی وندنا بھی کرتے ہیں، سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ محسن رضا اور بقل نواب کو انہی حرکتوں کی وجہ سے وزارت اور ایم ایل سی کی نشست ملی۔
ادھر بی جے پی کے اندرونی خانہ ان مسلمان بھاجپائی لیڈروں کی سخت تنقید کی جاری ہے جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ جو اپنے دھرم کا نہیں ہوا ، وہ دوسرے کے دین کا کیا ہوگا۔
ذرائع کے مطابق بی جے پی کے متعدد لیڈروں کا کہنا ہے کہ ان مسلمان لیڈروں کو پارٹی میں ہندوتوا کے فروغ کے بجائے انصاف کا رخ اختیار رکھنا چاہیے ،کیونکہ پارٹی میں ہندوتوا کے فروغ کےلئے لا تعداد افراد موجود ہیں۔ بہرحال محسن رضا اب اپنی صفائی دینے کے لئے صحافیوں سے منھ چرا رہے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined