آخری بار ہینڈ پمپ اس وقت سرخیوں میں آیا تھا جب اداکار سنی دیول نے اپنی 2001 کی بلاک بسٹر فلم ’غدر-ایک پریم کتھا‘ میں غصے میں ایک ہینڈ پمپ کو اکھاڑ دیا تھا۔ لیکن اب اتر پردیش کے سہارنپور ضلع میں ایک ہینڈ پمپ فرقہ وارانہ تشدد کی وجہ بن گیا ہے اور سرخیوں میں آ گیا ہے۔
Published: undefined
دراصل سہارنپور کے منیہارن بازار میں لگے ایک ہینڈ پمپ کو حال ہی میں ایک دکاندار مراری جھا کی گزارش پر افسران نے اکھاڑ دیا تھا، جو گزشتہ چار سالوں سے بند اپنی دکان کو پھر سے کھولنا چاہتا تھا۔ ہینڈ پمپ ان کی دکان کے سامنے لگا ہوا تھا۔ مراری جھا کے مطابق ’’ہینڈ پمپ ہماری دکان کے داخلی دروازے کو رخنہ انداز کر رہا تھا جسے ہم ابھی کھولنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ اس لیے پمپ کو ہٹانا ضروری تھا۔‘‘
Published: undefined
ہینڈ پمپ اکھاڑے جانے کے فوراً بعد دوسرے طبقہ کے ایک دکاندار کے ساتھ دیگر دکانداروں نے اس کی مخالفت کی اور اسے واپس لگانے کا مطالبہ کرنے لگے۔ ندیم خان نای ایک دکاندار نے آب رسانی کو پھر سے شروع کرنے کے لیے درخواست دے دی۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہندوؤں سمیت کئی دکان مالکوں کے لیے یہ ہینڈ پمپ پانی کا ذریعہ تھا۔ انھوں نے اسے صرف وقار کا مدا بنا دیا۔ ہم نے ہینڈ پمپ کی سمت بھی بدل دی تھی، تاکہ جھا کو اپنی دکان چلانے میں دقت نہ ہو، پھر بھی انھوں نے اسے ہٹا دیا۔ جب اسے ہٹایا جا رہا تھا تو سینکڑوں پولس اہلکار موقع پر پہنچے اور ہمیں احتجاج کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔‘‘
Published: undefined
مقامی سماجوادی پارٹی اور کانگریس اراکین اسمبلی نے احتجاجی مظاہرہ کیا جس کے بعد انتظامیہ نے ان کا مطالبہ مان لیا اور ہینڈ پمپ کو پھر سے لگانے کا فیصلہ کیا۔ جب حالات بہتر ہو رہے تھے تو ہندوتوا تنظیموں سے جڑے لوگوں نے معاملے کو بگاڑ دیا۔ وہ موقع پر پہنچے اور انتظامیہ کے خلاف مظاہرہ کرنے لگے، جس کے بعد انتظامیہ نے اپنے قدم پیچھے کھینچ لیے۔ بائیں بازو تنظیموں سے منسلک لوگوں نے وہاں ہنومان چالیسا کا پاٹھ بھی شروع کر دیا۔
Published: undefined
اس پورے واقعہ کے بعد انتظامیہ پوری طرح سے بیک فٹ پر آ گئی اور فی الحال موجودہ صورت برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔ یعنی ہینڈ پمپ دوبارہ نہیں لگایا جائے گا۔ ایڈیشنل ضلع مجسٹریٹ (بیہٹ) دیپتی دیو کا کہنا ہے کہ ’’ہم نے بیہٹ تھانہ انچارج کے ذریعہ سے معاملے کی جانچ کی۔ اس میں اخذ کیا گیا کہ ہینڈ پمپ واقعی دکان کے لیے مسئلہ پیدا کر رہا تھا اور اس لیے اسے ہٹانے کا حکم دیا گیا تھا۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز