آگرہ کی جس پرنسپل نے اسکول میں اقلیتی سماج کے بچوں کی اکثریت ہونے پر خود کو مذہبی استحصال کی شکار ظاہر کیا تھا، اس کی شرمناک کرتوت کا انکشاف ہو گیا ہے۔ آگرہ ضلع کے ڈی آئی او ایس افسر کی جانچ میں پایا گیا ہے کہ مذکورہ پرنسپل نے اسکول کی دوسری خاتون اساتذہ کی رنجش میں نفرت کی کہانی خود تیار کی اور مسلم سماج کی خاتون اساتذہ اور بچوں کو قصوروار ٹھہراتے ہوئے ویڈیو کو وائرل کر دیا۔
Published: undefined
واضح رہے کہ آگرہ کے جوائے ہیرس گرلس انٹر کالج کی پرنسپل ممتا دیکشت نے اسکول کی مسلم خاتون اساتذہ اور طالبات پر الزام لگاتے ہوئے ایک ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کر دیا تھا جس میں ممتا دیکشت کا کہنا تھا کہ اسکول کی مسلم خاتون اساتذہ لڑکیوں کو حجاب پہننے کے لیے اکساتی ہیں۔ اس ویڈیو کے پھیلتے ہی معاملے نے طول پکڑ لیا۔ فی الحال جانچ میں مسلم خاتون اساتذہ پر لگائے گئے سبھی الزامات غلط پائے گئے ہیں۔
Published: undefined
وائرل ویڈیو میں پرنسپل ممتا دیکشت نے بتایا تھا کہ کچھ لوگ انھیں پرنسپل کے عہدہ سے ہٹانا چاہتے ہیں اس لیے مسلم طبقہ کی سبھی طالبات اور اساتذہ مل کر میرے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ وہ مجھے پریشان کرتے ہیں تاکہ میں واپس لوٹ جاؤں۔ انھوں نے ویڈیو میں یہ بھی بتایا تھا کہ اسکول کی مسلم خاتون اساتذہ نے گروپ بنا لیا ہے اور وہ ان کے خلاف طالبات کو بھڑکا رہی ہیں۔ اسکول میں حجاب اور برقع پہن کر آنے کے لیے مسلم لڑکیوں کو اکسایا جا رہا ہے تاکہ کالج کا ماحول بگڑے۔ جب حجاب کی مخالفت کی جاتی ہے تو دھمکایا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ دفتر میں موجود سرسوتی ماں کی تصویر بھی ہٹانے کے لیے کہا گیا۔
Published: undefined
ویڈیو میں ممتا دیکشت بتاتی ہیں کہ کالج میں 70 فیصد طالبات مسلم طبقہ سے تعلق رکھتی ہیں اور اس وجہ سے کالج میں خاص مذہب کے ایجنڈے کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ کالج کے باہر صبح میں اور چھٹی کے وقت مسلم لڑکوں کی بھیڑ جمع رہتی ہے جو سنگین معاملہ ہے۔ یہ لوگ نعرہ بازی بھی کرتے ہیں۔ پرنسپل کا یہ بھی کہنا تھا کہ جس طرح کے حالات ہیں ایسے میں انھیں گھر جانے سے بھی ڈر لگتا ہے۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ کالج کی ایک سینئر ٹیچر پرنسپل عہدہ کی کرسی حاصل کرنے کے لیے یہ سب کچھ کروا رہی ہیں۔
Published: undefined
اس ویڈیو کے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد معاملہ بہت زیادہ پھیل گیا۔ ہندوتوا تنظیموں کے لوگ پرنسپل کی حمایت میں آواز اٹھانے لگے۔ پھر جیسے ہی یہ معاملہ افسروں تک پہنچا، معاملے کی جانچ شروع کی گئی۔ ضلع اسکول انسپکٹر اور ایڈیشنل سٹی مجسٹریٹ کے ذریعہ کی گئی جانچ میں پرنسپل کے ذریعہ لگائے گئے سبھی الزامات غلط ثابت ہوئے۔ الزامات کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد اے سی ایم اوّل دویا سنگھ، ڈی آئی او ایس منوج کمار اور کینٹ سے بی جے پی رکن اسمبلی ڈاکٹر جی ایس دھرمیش بھی اسکول پہنچے۔ اس دوران اساتذہ اور طالبات سے پوچھ تاچھ کی گئی اور کالج میں لگے سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج بھی دیکھی گئی۔
Published: undefined
جانچ کے دوران کسی بھی ٹیچر نے پرنسپل کے ذریعہ عائد کردہ الزامات پر اتفاق ظاہر نہیں کیا۔ ساتھ ہی سی سی ٹی وی فوٹیج چیک کیا گیا تو اس میں بھی کوئی ایسا منظر دکھائی نہیں دیا۔ آگرہ کے ڈی آئی او ایس کے مطابق پرنسپل کے ذریعہ عائد کیے گئے سبھی الزامات بے بنیاد پائے گئے۔ ڈی آئی او ایس منوج کمار نے بتایا کہ پوچھ تاچھ کے دوران پرنسپل کی آپسی رنجش کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ برقع پہن کر آنے کی شکایت پر 2 دن کی فوٹیج کی جانچ کی گئی لیکن الزام غلط نکلا ہے۔
Published: undefined
اسکول کی ایک خاتون ٹیچر گلفشاں کا کہنا ہے کہ سارے الزامات پہلے سے ہی غلط تھے۔ یہ پورا معاملہ غیر قانونی طور سے فیس وصولی کی شکایت سے دھیان بھٹکانے کا ہے۔ پرنسپل بچوں سے زیادہ فیس وصولنے کا دباؤ بنا رہی تھی۔ جب اساتذہ نے منع کیا تو انھوں نے ویڈیو وائرل کر ماحول بگاڑنے کی کوشش کی ہے۔
Published: undefined
مقامی باشندہ ندیم منصوری نے اس تعلق سے بتایا کہ یہ واقعہ انتہائی شرمناک ہے اور یہاں کچھ دن پہلے اسکول کی طالبات نے پرنسپل پر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے ان کو عہدہ سے ہٹانے کے لیے مظاہرہ کیا تھا۔ اس کے بعد پرنسپل کو لگا کہ اگر وہ خود کو اکثریتی سماج کی مظلوم ظاہر کریں تو ہمدردی اور موجودہ حالات کے سبب حمایت مل سکتی ہے۔ اسی لیے انھوں نے یہ جھوٹی کہانی تیار کی۔ معاملہ نے طول بھی پکڑ لیا اور ہندو تنظیمیں سرگرم بھی ہو گئیں، لیکن انتظامیہ نے سب صاف کر دیا۔
Published: undefined
واضح رہے کہ جوئے ہیرس گرلس انٹر کالج میں 28 اسٹاف ہیں۔ ان میں سے صرف دو ہی ٹیچر مسلم ہیں۔ علاوہ ازیں اسکول میں تقریباً 1000 طالب علم ہیں جن میں سے تقریباً 700 کا تعلق مسلم طبقہ سے ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined