لکھنؤ: قومی شہریت قانون کے خلاف حسین آباد کے گھنٹہ گھر میں جاری دو ہفتے سے مظاہرے کو ختم کرنے کے لئے ایک اور ترکیب تلاش کی گئی ہے۔ بظاہر بچوں کی ہمدردی کا دم بھرتے ہوئے یو پی کے اطفال کورٹ نے اپنے ممبروں کے دستخط سے میڈیا کے ذریعے ایک نوٹس جاری کیا، جس میں حسین آباد میں جاری مظاہرے میں شامل بچوں کی شمولیت پر پابندی عائد کر دی ہے۔ نوٹس میں کہا گیا ہے کہ اٹھارہ برس سے کم عمر کے ان بچوں کو وہاں سے ہٹا لیا جائے، کیونکہ ان کی تعلیم میں پریشانیاں پیدا ہوتی ہیں۔
Published: undefined
در اصل حسین آباد کے گھنٹہ گھر میں جو مظاہرہ دو ہفتے سے جاری ہے وہاں بڑی تعداد میں اپنے بچوں کے ساتھ شامل ہو رہی ہیں۔ کچھ خواتین مظاہرین کی گودیوں میں ان کے شیر خوار بچے بھی ہیں اور کچھ ان کی انگلی پکڑ کر لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ سرکاری سطح پر کئی بار یہ کوشش کی گئی کہ اس احتجاج کو ناکام کردیا جائے اور مختلف طرح سے وہاں کبھی ظلم و زیادتی، کبھی اپنے مخبروں کو بھیج کر تحریک کو توڑنے کی کوشش کی گئی۔
Published: undefined
بچوں کی بہبود سمیتی لکھنؤ کی جانب سے جاری ایک نوٹس کی بہرحال سرکاری طور پر تا دم تحریر تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔ مگراس نوٹس میں کہا گیا ہے کہ کشور نیائے (بچوں کی دیکھ ریکھ اور تحفظ) قانون 2015 کے مطابق ہر وہ شخص جو 18 سال سے کم عمر کا ہے وہ ’’بچہ“ ہی کہلائے گا۔ ادھینیم کی دفعہ 3(4) کے مطابق بچوں اور بچیوں کے بہترین مفادات کے پیش نظر بال کلیان سیمیتی کو کام کرنا ہے جس سے بچوں کا بچپن، ان کی تعلیم اور صحت کا دھیان رکھا جا سکے۔ اس صورت میں بال کلیان سیمیتی لکھنؤ متفقہ طور سے یہ حکم دیتی ہے کہ سبھی کنبے فوری طور سے جو اپنے بچوں کو لے کر لکھنؤ کے گھنٹہ گھر کے نزدیک دھرنا مظاہرہ کر رہے ہیں وہ بلا تاخیر اپنے بچوں کو مظاہرہ کے مقام سے گھر بھیجیں، تاکہ ان کے دن بھر کے کام جاری رہ سکیں۔ کئی بچے اپنا اسکول چھوڑ کر مظاہرہ کے مقام پر ہیں اور ان کے صحیح وقت پر کھانا کھانے اور کھیل کا انتظام بھی بگڑ چکا ہے۔
Published: undefined
لہذا بچوں کے عظیم مفادات کے پیش نظر ان کی ذہنیت پر منفی اثرات اثر انداز نہ ہوں اس لئے ان بچوں کو فی الفور دھرنے کی جگہ سے ہٹایا جائے، بصورت دیگر کشور نیائے ادھینیم کی دفعہ 75 کے تحت ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ اس نوٹس پر چار ممبروں کے دستخط ہیں، احتجاج کرنے والی خواتین کا کہنا ہے کہ ہم کو کسی ایسے نوٹس کی نہ خبر ہے اور نہ ہی اس کو تسلیم کریں گے۔ اگر سرکار یا کسی نجی ادارے کو ہمارے بچوں کی اتنی ہی فکر ہوتی تو پر امن احتجاج میں روکاوٹیں نہ پیدا کی جاتیں، نہ ہمارے سر پر سایہ ہے اور نہ ہی ہم کو سرد راتوں میں الاؤ جلانے کی اجازت ہے، اس لئے یہ ایک سازش کے تحت کیا جارہا ہے تاکہ جو خواتین اپنے بچوں کے ساتھ مظاہرہ کر رہی ہیں ان کی تعداد کو کم کیا جاسکے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز