میرٹھ میں غیر ملکی طالبات کے ساتھ ہوئی بدسلوکی معاملے میں ہنگامہ ہونے کے بعد اب میرٹھ پولیس نے مبینہ طور پر ہندو تنظیموں سے جڑے نامعلوم نوجوانوں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔ یہ مقدمہ نفرت پھیلانے کے مقصد سے اکسانے کے الزام میں دفعہ 153اے کے تحت درج کیا گیا ہے۔ ہفتہ کے روز میرٹھ میں چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی کیمپس کے اندر مبینہ طور پر ہندوتوا تنظیم سے منسلک کچھ طلبا نے غیر ملکی طالبات کے ساتھ نازیبا حرکت کی تھی۔ ملزم نوجوانوں پر خواتین کا مذہب پوچھتے ہوئے ان کے سامنے ’جئے شری رام‘ کا نعرہ لگوانے کا بھی الزام ہے۔ ان نوجوانوں نے غیر ملکی طالبات کی ویڈیو بنائی اور جھوٹی افواہ پھیلائی، اور ساتھ ہی یہ ظاہر کرنے کی کوشش بھی کی کہ غیر ملکی لڑکیاں اپنے مذہب کی تبلیغ کر رہی ہیں۔ حالانکہ میرٹھ پولیس نے واضح کر دیا ہے کہ یونیورسٹی کیمپس میں گھومنے آئی غیر ملکی لڑکیوں پر اپنا مذہب پھیلانے کا الزام غلط ہے۔
Published: undefined
تصویر بشکریہ آس محمد کیف
واضح رہے کہ 21 جنوری کو دہلی میں ہندی زبان کی پڑھائی کرنے والی تین کوریائی طالبات لی جوانگ، کم نیونگ اور کم یونگ اپنی ایک مقامی دوست کی دعوت پر میرٹھ کی چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی گھومنے پہنچی تھیں۔ جب کوریائی لڑکیاں کیمپس میں گھوم رہی تھیں تو کچھ طالبات آئے اور ویڈیو بناتے ہوئے لڑکیوں کو ٹرول کرنے لگے۔ ایک خاص تنظیم سے جڑے نوجوانوں نے لڑکیوں سے کیمپس آنے کی وجہ اور مذہب پوچھنا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ طلبا نے لڑکیوں کا راستہ بھی روک لیا اور ان کے مذہب پر تبصرہ کرتے ہوئے ’جئے شری رام‘ کا نعرہ بھی لگوایا۔ خبر ملنے کے بعد موقع پر پہنچی پولیس نے کوریائی لڑکیوں کو وہاں سے بچا کر باہر نکالا۔ لڑکیوں کے ساتھ بدسلوکی کر رہے طلبا اور متاثرہ لڑکیوں کو پولیس سول لائنس تھانے لے گئی جہاں متاثرین اور ملزم طلبا کے بیان درج کیے گئے۔ پولیس نے طالبات کو واپس دہلی بھجوا دیا۔ اب پولیس نے ملزم نوجوانوں کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔
Published: undefined
کوریائی طالبہ لی جوانگ نے بتایا کہ وہ دہلی میں ہندی زبان کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں تاکہ وہ کوریا واپس جا کر وہاں لوگوں کو ہندی کی تعلیم دے سکیں۔ انھوں نے پولیس کو بتایا کہ وہ دہلی سے میرٹھ اپنی کسی دوست سے ملنے پہنچی تھیں اور اسی دوران یونیورسٹی کیمپس میں گھومنے گئی تھیں۔ میرٹھ کے پولیس سپرنٹنڈنٹ سٹی پیوش کمار سنگھ کے مطابق ویڈیو کی بنیاد پر نامعلوم ملزم طلبا کے خلاف معاملہ درج کیا گیا ہے۔ حالانکہ ملزمین کی شناخت ابھی نہیں ہو پائی ہے۔ ویڈیو کی بنیاد پر ان کی پہچان کی جا رہی ہے۔ جانچ میں مذہب کی تبلیغ جیسا کوئی بھی معاملہ سامنے نہیں آیا ہے۔ کچھ طلبا نے سازش کے تحت ویڈیو بنا کر مذہب کی تبلیغ کے الزام عائد کیے تھے جو کہ غلط پائے گئے ہیں۔
Published: undefined
تصویر بشکریہ آس محمد کیف
میرٹھ کے مقامی لیڈر تیج ویر سنگھ نے اس واقعہ کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ واقعہ ان کے شہر کو شرمسار کرنے والا ہے۔ بیرون ملکی مہمانوں کے ساتھ یہ سلوک قطعی درست نہیں ہے۔ پولیس کو قصورواروں کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہیے۔ یہاں خاص بات یہ ہے کہ ہفتہ کے روز میرٹھ پولیس نے طلبا کے ذریعہ عائد کردہ مذہبی تبلیغ کے الزامات کو بے بنیاد ضرور بتا دیا تھا، لیکن نازیبا سلوک کرنے والے طلبا کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہیں کی تھی۔ اتوار کو مرکزی وزارت داخلہ نے اس واقعہ پر میرٹھ پولیس سے جواب طلب کیا، جس کے بعد میرٹھ کی میڈیکل تھانہ پولیس نے اتوار کی شب کو وائرل ویڈیو کی بنیاد پر نامعلوم طلبا کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 153اے کے تحت مقدمہ درج کیا۔ جانکاری کے مطابق ملزم طلبا کسی ہندوتوا تنظیم سے جڑے ہوئے ہیں، حالانکہ اس کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ میڈیکل تھانہ انچارج کویش ملک کا کہنا ہے کہ ویڈیو کی بنیاد پر نوجوانوں کی شناخت کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز