سری نگر: مرکزی حکومت کی طرف سے دفعہ370 اور دفعہ 35 اے کے تحت جموں وکشمیر کو حاصل خصوصی اختیارات کی منسوخی اور ریاست کو دو وفاقی حصوں میں منقسم کرنے کے فیصلے کے خلاف وادی کشمیر میں غیر اعلانیہ ہڑتال پیر کے روز 78 ویں دن میں داخل ہوگئی ہے۔
Published: undefined
رواں ماہ کی 31 تاریخ جب جموں وکشمیر اور لداخ نامی دو مرکزی زیر انتظام والے علاقے رسمی طور پر معرض وجود میں آئیں گے، سے قبل وادی میں موبائل فون خدمات ایک بار پھر معطل ہوسکتی ہیں۔ وادی میں 71 دنوں تک جاری رہنے والے طویل اور بدترین مواصلاتی بلیک آوٹ کے بعد پوسٹ پیڈ موبائل فون کی کالنگ خدمات 14 اکتوبر کو بحال کی گئی تھیں۔
Published: undefined
ذرائع نے بتایا کہ '31 اکتوبر جب جموں وکشمیر رسمی طور پر دو حصوں میں منقسم ہوجائے گی، سے قبل وادی میں احتیاط کے طور پر فون خدمات ایک بار پھر معطل ہوسکتی ہیں۔ تاہم اس حوالے سے تاحال کوئی حتمی فیصلہ نہیں لیا گیا ہے'۔ وادی میں انٹرنیٹ خدمات بشمول لیز لائن و براڈ بینڈ کی معطلی جاری ہے۔ تمام میڈیا و نجی دفاتر کے انٹرنیٹ کنکشنز بند رکھے گئے ہیں۔ بعض سرکاری دفاتر بشمول اسپتالوں میں بھی انٹرنیٹ خدمات کو معطل رکھا گیا ہے۔ جہاں خطہ جموں میں اب تک صرف موبائل فون کنکشنز کی کالنگ خدمات وہیں لداخ میں دونوں کالنگ اور انٹرنیٹ خدمات بحال کی جاچکی ہیں۔
Published: undefined
براڈ بینڈ اور موبائل انٹرنیٹ خدمات جو گزشتہ زائد از ڈھائی ماہ سے مسلسل معطل ہیں، مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لئے سوہان روح بن گئی ہے۔ صحافیوں اور طلبا کو انٹرنیٹ کی عدم دستیابی سے زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔ وادی بھر میں پانچ اگست کو لوگوں کی آزادانہ نقل وحرکت پر سخت پابندیاں عائد کی گئی تھیں جو حکومت کے مطابق 99 فیصد علاقوں سے ہٹائی جاچکی ہیں۔ تاہم وادی میں خصوصی پوزیشن کی منسوخی اور ریاست کو دو مرکزی زیر انتظام والے علاقوں میں تبدیل کئے جانے کے بعد پیر کو مسلسل 78 ویں دن بھی ہڑتال جاری رہی۔
Published: undefined
موصولہ اطلاعات کے مطابق شہر سری نگر کے جملہ علاقوں کے علاوہ تمام ضلع صدر مقامات و قصبہ جات میں پیر کے روز بھی بازاروں میں دن کے وقت الو بولتے رہے، تعلیمی اداروں میں طلبا کی حاضری نہ ہونے کے برابر درج کی گئی اورپبلک ٹرانسپورٹ سڑکوں سے غائب رہا تاہم نجی ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل حسب سابقہ جاری رہی اور سرکاری دفاتر و بنکوں میں معمول کا کام کاج ہوا۔
Published: undefined
ادھر انتظامیہ کی طرف سے تعلیمی اداروں کو کھولنے کے اعلانات کے باوجود تعلیمی اداروں میں درس وتدریس کا عمل بحال ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے کیونکہ تعلیمی اداروں میں عملہ تو موجود رہتا ہے لیکن طلبا گھروں میں بیٹھنے کو ہی ترجیح دے رہے ہیں۔ تاہم جموں و کشمیر اسٹیٹ بورڑ آف اسکول ایجوکیشن کی طرف دسویں، گیارہویں اور بارہویں جماعت کے لئے ڈیٹ شیٹ جاری کرنے کے پیش نظر اسکولوں میں طلبا کا رش بڑھ گیا ہے۔
Published: undefined
تعلیمی اداروں کے عملے کے مطابق طلبا امتحانی فارم اور اس سے متعلق دیگر امور کی انجام دہی اور امتحان کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے اسکول آتے ہیں جس کی وجہ سے اسکولوں میں طلبا کے آنے کا رش بڑھ گیا ہے۔ والدین کا کہنا ہے کہ وہ موجودہ حالات کے بیچ بچوں کو اسکول یا کالج بھیجنے میں مختلف النوع خطرات محسوس کررہے ہیں۔
Published: undefined
دوسری طرف انتظامیہ نے ان تعلیمی اداروں سے سیکورٹی فورسز ہٹانی شروع کردی ہے جن میں اگست کے اوائل میں سیکورٹی فورسز خیمہ زن ہوئی تھی۔ سری نگر کے مولانا آزاد روڑ پر واقع ایس کالج و ایس پی ہائر سکینڈری اسکول سے سیکورٹی فورسز کو ہٹایا گیا ہے اور اس کے باب الداخلے کے نزدیک تعمیر شدہ بنکر بھی ہٹائے گئے ہیں۔
Published: undefined
یو این آئی اردو نے 16 اکتوبر کو اس معاملے پر ایک خبر کی تھی جس میں والدین اور طلبا کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ تعلیمی اداروں میں سیکورٹی فورسز کی موجودگی سے انہیں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ سیکورٹی ذرائع نے یو این آئی اردو کو بتایا تھا کہ سیکورٹی فورسز کو بہت جلد تعلیمی اداروں سے دوسری جگہوں پر منتقل کیا جائے گا۔
Published: undefined
اس دوران جموں وکشمیر کی انتظامیہ نے مرکزی حکومت کو ایک رپورٹ بھیجی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کشمیر کے تعلیمی اداروں میں طلبا کی 20 فیصد حاضری دیکھی جارہی ہے اور جموں کے تعلیمی اداروں میں برابر صد فیصد طلبا حاضر رہتے ہیں۔ دریں اثنا پیر کے روز بھی وادی بھر میں غیر اعلانیہ ہڑتال کی وجہ سے جوں کی توں صورتحال سایہ فگن رہنے سے معمولات زندگی متاثر رہی۔ سری نگر کے تمام علاقوں بشمول تجارتی مرکز لال چوک میں بھی دن بھر ہو کا عالم چھایا رہا اگرچہ کئی ایک ریڑہ بانوں نے لب سڑک ریڑے لگائے تھے لیکن دکانیں برابر مقفل رہیں۔
Published: undefined
وادی میں قومی دھارے و حریت کے درجنوں چھوٹے بڑے قائدین بھی لگاتار خانہ یا تھانہ نظر بند ہیں۔ ریاست کے تین سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی حراست میں ہیں جبکہ نیشنل کانفرنس کے صدر اور تین بار وزارت اعلیٰ کی کرسی پر براجمان رہنے اور دو بار رکن پالیمان کا اعزاز حاصل کرنے والے ڈاکٹر فاروق عبداللہ پی ایس اے کے تحت اپنی رہائش گاہ پر محصور ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined