نریندر مودی حکومت یکے بعد دیگرے ہر محاذ پر ناکام ہوتی نظر آ رہی ہے۔ ساتھ ہی اس کی کشمیر پالیسی کی بھی قلعی کھلنے لگی ہے۔ 2014 میں نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے کشمیر میں نوجوانوں کے ملی ٹینٹ تنظیموں سے منسلک ہونے کی رفتار میں زبردست تیزی آئی ہے۔ اس سال یہ تعداد گزشتہ سات سال کے ریکارڈ کو عبور کر گئی ہے۔ اس سال نومبر تک 117 نوجوانوں نے الگ الگ ملی ٹینٹ تنظیموں کا دامن تھاما ہے جب کہ 2014 میں دہشت گردی کی راہ اختیار کرنے والے نوجوانوں کی تعداد محض 16 تھی۔
مودی حکومت کا دعویٰ ہے کہ نوٹ بندی کے بعد ملی ٹینٹنسی کے واقعات پر لگام لگا ہے۔ اس کے علاوہ آپریشن آل آﺅٹ چلا کر بھی شورش پسندی پر قدغن لگانے کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق آپریشن آل آﺅٹ میں 205 ملی ٹینٹوں کی موت ہو چکی ہے۔ ساتھ ہی فنڈنگ کے خلاف قومی جانچ ایجنسی یعنی این آئی اے کی کارروائی بھی جاری ہے۔ لیکن یہ سبھی اقدام ناکام ثابت ہوئے ہیں اور مقامی نوجوانوں کے ملی ٹینٹ تنظیموں میں لگاتار بڑھ رہی بھرتی پر قابو پانے میں ناکام ہو رہے ہیں۔
اس سال کشمیر میں 100 سے زائد مقامی نوجوان الگ الگ ملی ٹینٹ تنظیموں میں شامل ہوئے ہیں جو گزشتہ سات سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔ ذرائع کے مطابق 2016 میں جب پورے کشمیر میں نظام قانون سے متعلق بحران پیدا ہوا تھا تو گلی محلوں میں ہو رہے ملک مخالف مظاہروں میں ملی ٹینٹ کھلے عام نظر آتے تھے۔ اس وقت 88 مقامی نوجوان ہی ملی ٹینٹ بنے تھے۔ لیکن 2017 میں یکم جنوری سے نومبر کے آخری ہفتہ تک 117 مقامی نوجوان ملی ٹینٹ بنے ہیں۔ سات نوجوان دسمبر کے دوران ملی ٹینٹ تنظیموں میں شامل ہوئے۔
دستیاب اعداد و شمار کے مطابق اننت ناگ سے 12، پلواما سے 45، شوپیاں سے 24 اور کلگام سے 10 نوجوانوں نے ملی ٹینٹ تنظیموں کا دامن تھاما ہے۔ شمالی کشمیر کے ضلع کپواڑہ سے چار، بارہمولہ اور سوپور سے 6 نوجوان ملی ٹینٹ بنے ہیں۔ باندی پور سے سات نوجوانوں نے ملی ٹینٹ بننے کی راہ اختیار کی ہے۔ سری نگر ضلع سے پانچ نوجوان گھروں سے غائب ہو کر ملی ٹینٹ تنظیم سے منسلک ہوئے ہیں۔ بڈگام ضلع میں چار نوجوان ملی ٹینٹ بنے ہیں۔ 2010 سے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق موجودہ سال 2017 میں ملی ٹینٹ تنظیموں کو نئے لڑکوں کی ٹیم تیار کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی ہے۔ 2010 میں 54 اور 2011 میں 23 مقامی نوجوان ملی ٹینٹ بنے تھے، اسی طرح 2012 میں 21 اور 2013 میں 16 نوجوانوں نے ملی ٹینٹ بننے کی راہ اختیار کی تھی۔ لیکن مرکز میں مودی کے برسراقتدار ہونے کے بعد 2014 میں مقامی نوجوانوں کے ملی ٹینٹ تنظیموں میں بھرتی ہونے کا عمل تیز ہو گیا۔ 2014 میں 53 مقامی لڑکے ملی ٹینٹ بنے تھے۔ 2015 میں 66 مقامی نوجوان مختلف ملی ٹینٹ تنظیموں کا حصہ بنے۔
دوسری طرف ریاست کے پولس ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ایس پی وید دعویٰ کرتے ہیں کہ اس سال کشمیر میں ملی ٹینٹ تنظیم جوائن کرنے والے مقامی نوجوانوں کی تعداد 100 سے کم ہے اور 80 نوجوانوں کو ملی ٹینٹ بننے سے روکا گیا ہے۔ علاوہ ازیں 8 سے 10 نوجوانوں نے ملی ٹینٹ کی راہ چھوڑ کر اصل دھارے کی زندگی بسر کرنی شروع کر دی ہے۔ ریاستی پولس کے ایک دیگر افسر کا کہنا ہے کہ پولس صرف انہی معاملوں کا نوٹس لیتی ہے جن میں کسی نوجوان کے گھر سے غائب ہونے پر اس کے کنبہ والے پولس میں شکایت کرتے ہیں۔ اس شکایت کی تفتیش میں اگر نوجوان کے ملی ٹینٹ بننے کا پتہ چلے تو مان لیا جاتا ہے کہ وہ ملی ٹینٹ ہے۔
اس کے علاوہ حکومت کا یہ دعویٰ بھی غلط ہی ثابت ہوا ہے کہ نوٹ بندی سے شورش پسندانہ سرگرمیوں میں کمی آئی ہے۔ حکومت نے پارلیمنٹ میں خود مانا ہے کہ گزشتہ سال کے مقابلے کشمیر میں شورش پسندانہ سرگرمیاں بڑھی ہیں۔ لوک سبھا میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق جموں و کشمیر میں یکم نومبر 2015 سے 30 اکتوبر 2016 کے درمیان 311 شورش پسندانہ واقعات ہوئے اور یکم نومبر 2016 سے 31 اکتوبر 2017 کے درمیان جموں و کشمیر میں شورش پسندانہ واقعات کی تعداد 341 ہو گئی۔ وزارت داخلہ کا تحریر جواب میں یہ کہنا ہے کہ شورش پسندی کم ہوئی ہے لیکن شورش پسندانہ سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
Published: 25 Dec 2017, 9:31 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 25 Dec 2017, 9:31 AM IST