70 سالہ بزرگ کھیلئی گزشتہ کئی برسوں سے خود کو زندہ ثابت کرنے کے لیے سرکاری دفاتر کے چکر کاٹ رہے تھے۔ اپنے آپ کو زندہ بتانے کی کوشش میں بھاگ دوڑ کرتے ہوئے وہ آخر موت کی آغوش میں ہی چلے گئے۔ کھیلئی نامی یہ بزرگ گزشتہ 6 سالوں سے کاغذوں میں درج اپنی موت کے خلاف لڑ رہے تھے۔ اس لڑائی کے آخری مرحلے میں انھیں افسروں کے سامنے پیش ہو کر خود کو زندہ ثابت کرنا تھا، لیکن اب تو وہ کاغذوں میں ہی نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں بھی انتقال کر گئے ہیں۔
Published: undefined
میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ بدھ (16 نومبر) کو کھیلئی افسران کے سامنے پیش تو ہوئے، لیکن اپنی بات نہیں رکھ پائے۔ اب ان کی موت کے بعد ایک ہنگامہ برپا ہو گیا ہے اور افسران پر بھی انگلیاں اٹھنے لگی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ 2016 میں کھیلئی کے بڑے بھائی پھیرئی کی موت ہوئی تھی، لیکن ان کی جگہ کاغذوں میں چھوٹے بھائی (کھیلئی) کو مرا ہوا دکھا دیا گیا۔
Published: undefined
دھنگھٹا تحصیل علاقہ کے کوڑرا گاؤں میں رہنے والے 90 سالہ پھیرئی کی موت 2016 میں ہوئی تھی، لیکن ان کی جگہ کھیلئی کو مردہ بتا دیا گیا۔ یہ کھیل سرکاری لیکھ پال سمیت تحصیل اہلکاروں کے ذریعہ کھیلا گیا تھا۔ سرکاری افسران کا کھیل یہیں ختم نہیں ہوا، ایک فرضی وصیت کے ذریعہ زندہ کھیلئی کی ملکیت بڑے بھائی پھیرئی کی بیوی سوماری دیوی، ان کے بیٹے چھوٹے لال، چالورام اور ہرکناتھ کے نام سے کر دی گئی۔ اس کی جانکاری جب کھیلئی کو ہوئی تو وہ پریشان ہو گئے۔ وہ ایس ڈی ایم، تحصیلدار، نائب تحصیلدار کے پاس زندہ ہونے کا ثبوت دے رہے تھے، لیکن کہیں کوئی سماعت نہیں ہو رہی تھی۔
Published: undefined
میڈیا رپورٹس کے مطابق جب کھیلئی خود کو زندہ ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف تھے، تبھی گاؤں میں چک بندی کا عمل شروع ہو گیا۔ پھر کھیلئی نے چک بندی کورٹ میں اپیل کی۔ وہاں بھی کھیلئی کی ملکیت ان کے نام نہیں ہو پائی۔ منگل کے روز وہ پھر تحصیل پہنچے تھے تو چک بندی افسر نے بدھ کے روز بلایا تھا۔ بدھ کے روز کھیلئی اپنے بیٹے ہیرالال کے ساتھ تحصیل پہنچے لیکن ان کی اچانک طبیعت خراب ہو گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ تقریباً 11 بجے ان کی موت واقع ہو گئی، اور اس کے ساتھ ہی خود کو زندہ ثابت کرنے کی ان کی جنگ بھی ختم ہو گئی۔
Published: undefined
اپنے والد کی موت کے غم میں ڈوبے ہیرالال نے غمزدہ حالت میں نم آنکھوں کے ساتھ میڈیا کو بتایا کہ ان کی ماں کا انتقال ہو چکا ہے، اور اب والد بھی نہیں رہے۔ ہیرالال کہتے ہیں ’’مجھے زندگی بھر اس بات کا غم رہے گا کہ میرے والد خود کو زندہ ثابت کرنے کے لیے برسوں دوڑ بھاگ کرتے رہے اور آخر کار سچ میں ان کی موت ہو گئی۔‘‘ ہیرالال کا کہنا ہے کہ وہ پانچ بھائی (ہیرالال، پنا لال، امرت لال، امرجیت اور رنجیت) ہیں۔ وہ والد کو لے کر منگل کے روز یہاں (تحصیل دفتر) پر بیان درج کرانے کے لیے آئے تھے۔ چک بندی افسر نے بدھ کو آنے کے لیے کہا تھا اور پھر وہ چک بندی افسر کے پاس پہنچے ضرور، لیکن ان کی موت ہو گئی۔ ہیرالال کا کہنا ہے کہ کھیلئی خود کو کاغذ پر مردہ بتائے جانے سے بہت صدمہ میں تھے اور اسی وجہ سے ان کی موت ہوئی۔
Published: undefined
اس معاملہ میں سنت کبیر نگر دھنگھٹا کے چک بندی افسر اے کے دویدی نے بتایا کہ کھیلئی کو بدھ کے روز بیان دینے کے لیے بلایا گیا تھا۔ بیان لینے کے بعد ان کی ملکیت کو ان کے نام کرنے کی تیاری تھی، لیکن اس سے پہلے ہی ان کی موت ہو گئی۔ ڈپٹی ضلع مجسٹریٹ رویندر کمار کا اس معاملے میں کہنا ہے کہ زندہ ہونے کے بعد بھی کھیلئی کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ کیسے بنا اور کس طرح دوسرے کے نام وصیت تیار ہوا، ان سبھی نکات کی جانچ کرائی جائے گی۔ رویندر کمار کہتے ہیں ’’اس کھیل میں جو بھی شامل ہوگا، اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز