سری نگر: جموں وکشمیر میں کام کرنے والی حقوق انسانی کی دو معروف تنظیموں نے ایک رپورٹ جاری کردی ہے جس کے مطابق جموں کشمیر میں مسلح افواج کے ہاتھوں ٹارچر کے شکار ہونے والوں میں سے 70 فیصد عام شہری ہیں جبکہ ٹارچر متاثرین میں سے 11 فیصد کی موت واقع ہوئی ہے۔
Published: undefined
رپورٹ میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے حقوق انسانی سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ کشمیر میں ہورہے ٹارچر کی تحقیقات بین الاقوامی سطح پر کرائیں نیز حکومت ہند سے بھی تاکید کی گئی ہے کہ وہ ٹارچر کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشن کو تسلیم کرے۔ 560 صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ 'دی ایسوسی ایشن آف پیرنٹس آف ڈس اپئررڈ پرسنز' اور 'جموں کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی' نے مشترکہ طور پر تیار اور جاری کی ہے۔ یہ تفصیلی رپورٹ پیر کو 'جموں کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی' کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی۔
Published: undefined
رپورٹ میں وادی میں مسلح شورش کے آغاز یعنی سنہ 1990ء سے جموں وکشمیر میں جاری مبینہ ٹارچر پر خاص طور پر توجہ مرکوز کی گئی ہے اور سال 1947 سے بھی جموں وکشمیر میں ہوئے ٹارچر کا مرحلہ وار تاریخی پس منظر پیش کیا گیا ہے۔
Published: undefined
رپورٹ میں 432 کیسوں کو اسٹیڈی کرتے ہوئے جموں وکشمیر میں تشدد کے رجحانات، طریقہ کاروں، مرتکبین، متاثرین، مقامات اور اثرات کا بھی خاکہ کھینچا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسلح افواج کو حاصل قانونی، سیاسی اور اخلاقی حمایت کے باعث جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے کسی بھی کیس میں کوئی مقدمہ نہیں ہوا ہے۔
Published: undefined
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بدنام زمانہ گوانتا نامو اور ابو غریب جیلوں میں ہورہے ٹارچر پر عالمی توجہ اور مذمت کے باوجود بھی جموں وکشمیر جہاں ہزراوں کی تعداد میں عام شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے، میں ٹارچر ابھی سر بستہ راز ہی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر میں حکومت ہند ٹارچر کو ایک منظم اور مربوط پالیسی کے بطور استعمال کرتی ہے اور ریاست کے تمام ادارے بشمول قانون سازیہ، ایگزیکٹیو،عدلیہ اور مسلح افواج اس کا ایک حصہ ہیں۔
Published: undefined
جموں وکشمیر میں جاری مبینہ ٹارچر کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا 'جموں کشمیر میں ٹارچر کا استعمال بڑے پیمانے پر جاری وساری ہے، حال ہی میں سال رواں کے ماہ مارچ کی 19 تاریخ کو رضوان پنڈت نامی ایک 29 سالہ اسکول پرنسپل کو جموں وکشمیر پولس کی اسپیشل آپریشنز گروپ کے کارگو کیمپ میں دوران حراست ٹارچر کرکے ابدی نیند سلا دیا گیا، تین دن بعد پولس نے رضوان کے خلاف ایک کیس درج کیا جس میں الزام لگایا گیا کہ وہ پولس حراست سے فرار ہونے کی کوشش کرتا تھا جبکہ جن پولس افسروں کی تحویل میں رضوان کی موت واقع ہوئی ان کے خلاف کوئی کیس درج نہیں کیا گیا'۔
Published: undefined
رپورٹ میں سال 1947 سے ہی مخالف آوازوں کو دبانے کے لئے ٹارچر کو بروئے کار لانے، جو سال 1990 کے بعد نقطہ عروج پر پہنچا، کا مختصر تاریخی پس منظر کھینچا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جموں کشمیر میں سال 1990 کے بعد صرف مسلح افواج کے ہاتھوں ٹارچر اور دوسری انسانی حقوق کی پامالیوں کا ارتکاب نہیں ہوا بلکہ اس کے لئے اخوان اور ولیج ڈیفنس کمیٹیاں جیسے مختلف ادارے بھی معرض وجود میں لائے گئے۔
Published: undefined
رپورٹ میں ٹارچر کے جن طریقوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں محبوسین کے کپڑے پھاڑ کر انہیں ننگا کرنا (432 میں سے 190 کیسوں کو اسٹیڈی کیا گیا)، لاٹھیوں، لوہے کے ڈنڈوں اور چمڑے کی بلٹوں سے مارنا ( 326 کیسز)، جسم پر رولر کا استعمال کرنا (169 کیسز)، محبوسین کا سر پانی میں ڈبونا ( 101کیسز)، بجلی کے کرنٹ دینا ( 231 کیسز)، چھت سے الٹا لٹکانا (121 کیسز)، گرم چیزوں سے جسم جلانا (35 کیسز)، تنہا سیل میں بند رکھنا ( 11 کیسز)، نیند سے محروم رکھنا ( 21 کیسز)، جنسی تشدد ( 238 کیسز) وغیرہ شامل ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تشدد کے متاثرین میں سے غالب اکثریت عام شہریوں کی ہے، 432 متاثرین میں سے 301 عام شہری ہیں جن میں خواتین، طلباء، نابالغ، سیاسی کارکنان، انسانی حقوق کارکنان اور صحافی شامل ہیں علاوہ ازیں پوری آبادی کو محاصروں اور تلاشی کارروائیوں کے ذریعے اجتماعی سزا دی جاتی جس دوران ٹارچر بھی کیا جاتا ہے اور جنسی تشدد بھی کا ارتکاب بھی کیا جاتا ہے۔
Published: undefined
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تشدد کے متاثرین یہاں تک کہ جنہوں نے ٹارچر ہوتے ہوئے دیکھا ہے، نہ صرف مختلف مہلک جسمانی امراض میں مبتلا ہوئے بلکہ مختلف نفسیاتی بیماریوں کے شکار بھی ہوئے۔ 432 میں سے 49 متاثرین ٹارچر کے بعد زندہ نہ رہ سکے، ان میں سے 40 متاثرین کی ٹارچر کے دوران زخمی ہونے سے موت واقع ہوئی۔
Published: undefined
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹارچر کا تعلق دیگر انسانی حقوق خلاف ورزیوں جیسے دوران حراست ہلاکتوں اور جبری گمشد گیوں کے ساتھ بھی ہے اور ٹارچر کو تب ہی میڈیا میں رپورٹ کیا جاتا ہے جب اس دوران موت واقع ہوئی بصورت دیگر ٹارچر کو نوٹس ہی نہیں کیا جاتا ہے اور متاثرین خاموشی کے ساتھ تکلیف برداشت کرتے ہیں۔
Published: undefined
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چونکہ کشمیر میں آپریشن آل آوٹ کی پالسیاں جاری ہیں اور مسلح افواج کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے جیسا کہ وزیر اعظم نے حال ہی میں رواں سال کے ماہ فروری کی 15 تاریخ کو اعلان کیا، مسلح افواج کو ٹارچر کرنے کے لئے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اے پی ڈی پی اور جے کے سی سی ایس کی طرف سے تیار کردہ یہ رپورٹ ٹارچر کے تئیں خاموشی کو توڑنے کی ایک کوشش ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined