مظفر نگر فساد سے متعلق کئی مقدمات پر 2017 سے اب تک سماعتیں ہوئیں، لیکن اس کے جو نتائج برآمد ہوئے ہیں وہ حیران کرنے والے ہیں۔ ایک تفتیش کے مطابق مظفر نگر میں سال 2013 میں ہوئے فساد میں کم از کم 65 لوگ مارے گئے تھے اور اس معاملے پر 2017 سے مظفر نگر کی عدالت نے 41 معاملوں میں فیصلہ سنایا ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان میں سے قتل کے صرف ایک معاملے میں سزا کا فیصلہ آیا ہے۔ اس فساد کے دوران مسلمانوں پر ہوئے حملے کے باقی سبھی معاملوں میں ملزمین بری ہو گئے ہیں۔
Published: 19 Jul 2019, 10:10 AM IST
یہ انکشاف انگریزی روزنامہ ’انڈین ایکسپریس‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں کیا ہے۔ جانچ میں سامنے آیا ہے کہ پولس نے اہم گواہوں کے بیان ہی درج نہیں کیے اور پولس کی طرف سے قتل میں استعمال کیے گئے اسلحوں کو بھی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ کئی گواہ ایسے بھی سامنے آئے جنھوں نے عدالت میں گواہی کے وقت اپنا بیان ہی بدل دیا۔ اس طرح عدالت کے جو فیصلے آئے ان میں 41 میں سے 40 معاملوں میں ملزمین بری ہو گئے۔
Published: 19 Jul 2019, 10:10 AM IST
قابل ذکر ہے کہ فساد کے سبھی معاملے اکھلیش یادو کی حکومت میں درج کیے گئے اور ان معاملوں کی سماعت اکھلیش حکومت کے ساتھ ہی بی جے پی حکومت میں بھی ہوئی۔ اس سال 8 فروری کو عدالت نے 7 ملزمین مزمل، مجسم، فرقان، ندیم، جہانگیر، افضل اور اقبال کو عمر قید کی سزا سنائی۔ ان لوگوں پر 27 اگست 2013 کو کاول گاؤں کے گورو اور سچن کے قتل کا الزام تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس قتل کے بعد ہی فساد برپا ہوئے تھے۔
Published: 19 Jul 2019, 10:10 AM IST
’انڈین ایکسپریس‘ نے اپنی تحقیقی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس نے 10 مقدموں سے جڑے شکایت دہندگان اور گواہوں سے بات چیت کے ساتھ ہی عدالتی ریکارڈ اور دستاویزوں کی جانچ کی۔ اس میں سامنے آیا کہ ایک فیملی کو زندہ جلا دیا گیا۔ علاوہ ازیں ایک شخص کے والد کا تلوار سے قتل کر دیا گیا۔ اس معاملے میں ملزم 53 لوگ کھلے عام گھوم رہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں، یہ حالت اجتماعی عصمت دری کے 4 معاملوں اور فسادات کے دیگر 26 معاملوں میں بھی دیکھنے کو ملی۔ یو پی حکومت نے اس تعلق سے صاف کہہ دیا ہے کہ وہ ان معاملوں میں اپیل نہیں کرے گی۔
Published: 19 Jul 2019, 10:10 AM IST
انگریزی روزنامہ میں شائع رپورٹ میں سرکاری وکیل دشینت تیاگی کا ایک بیان بھی دیا گیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ ’’ہم سال 2013 کے مظفر نگر فساد معاملہ میں کوئی اپیل نہیں کرنے جا رہے۔ ان معاملوں میں سبھی اہم گواہ اپنے بیان سے پلٹ گئے تھے۔ ان معاملوں میں ملزمین کے خلاف فرد جرم گواہوں کے بیان پر ہی درج کیے گئے تھے۔‘‘
Published: 19 Jul 2019, 10:10 AM IST
انگریزی روزنامہ نے اپنی تحقیقی رپورٹ میں حیران کرنے والی کئی باتیں پیش کی ہیں۔ اس رپورٹ میں قتل سے متعلق 10 کیس کا بہت باریکی سے جائزہ لیا گیا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ شکایت میں 69 لوگوں کا نام درج تھا جب کہ صرف 24 لوگوں پر مقدمہ چلا۔ دیگر 45 لوگوں پر مقدمہ چلا ضرور، لیکن ان کا نام حقیقی شکایت میں درج ہی نہیں کیا گیا۔ یہ بات بھی حیران کرنے والی ہے کہ سبھی شکایتوں میں قتل میں استعمال اسلحہ کا ذکر تھا لیکن پولس صرف 5 معاملوں میں ہی ثبوت برآمد کر پائی۔
Published: 19 Jul 2019, 10:10 AM IST
اسیم الدین اور حلیمہ کے قتل معاملہ میں ’انڈین ایکسپریس‘ نے لکھا ہے کہ پولس نے ثبوتوں کی برآمدگی کے وقت دو آزاد گواہوں کا نام درج کیا تھا۔ دونوں گواہوں کا کہنا تھا کہ ان کی موجودگی میں کوئی ثبوت نہیں جمع کیے گئے۔ انھوں نے کہا کہ پولس نے انھیں خالی پیپر پر دستخط کرنے کے لیے کہا۔ علاوہ ازیں اسیم الدین اور حلیمہ معاملہ میں پولس نے پوسٹ مارٹم رپورٹ ہی پیش نہیں کی۔ تیتاوی میں تین لوگوں کے قتل سے متعلق بھی شائع رپورٹ میں تذکرہ ہے اور لکھا گیا ہے کہ تین لوگوں کے قتل میں پولس نے پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر سے کراس اگزامن نہیں کیا۔
Published: 19 Jul 2019, 10:10 AM IST
ایک قتل معاملہ سے متعلق انگریزی روزنامہ نے لکھا ہے کہ ’’قتل کے ایک معاملہ میں زریف نے کہا کہ سنگین طور پر زخمی اس کے والد مرنے سے پہلے اپنا بیان درج کرنا چاہتے تھے لیکن پولس نے ان کا بیان درج نہیں کیا۔ پولس نے انھیں اسپتال لے جانے کی جگہ گھنٹوں انتظار کرایا۔‘‘ شائع رپورٹ کے مطابق زریف نے کہا کہ ملزمین کو بچانے کے لیے اہم ثبوتوں کو جمع نہیں کیا گیا۔
Published: 19 Jul 2019, 10:10 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 19 Jul 2019, 10:10 AM IST